وحدثنا زهير بن حرب ، وابن ابي عمر جميعا، عن سفيان ، قال ابن ابي عمر حدثنا سفيان بن عيينة، عن مصعب بن سليم ، عن انس ، قال: " اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بتمر، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يقسمه وهو محتفز ياكل منه اكلا ذريعا "، وفي رواية زهير اكلا حثيثا.وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُهُ وَهُوَ مُحْتَفِزٌ يَأْكُلُ مِنْهُ أَكْلًا ذَرِيعًا "، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ أَكْلًا حَثِيثًا.
زہیر بن حرب اور ابن ابی عمر نے سفیان بن عیینہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مصعب بن سلیم سے انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی: کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجوریں پیش کی گئیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھےہو ئے ان کو تقسیم فرما نے لگے جیسے آپ ابھی اٹھنےلگے ہوں (بیٹھنےکی وہی کیفیت جو پچھلی حدیث میں بیان ہو ئی دوسرے لفظوں میں بتا ئی گئی ہے) اور آپ اس میں سے جلدی جلدی چند دانے کھارہے تھے۔زہیر کی۔ روایت میں ذَریعاً کے بجائے حَثِیثًا کا لفظ ہے یعنی بغیر کسی اہتمام کے جلدی جلدی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں لائی گئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکڑوں بیٹھ کر تقسیم کرنے لگے، ان سے جلدی جلدی کھا رہے تھے، زہیر کی روایت میں ذريعا
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5332
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: محتفز: اس آدمی کو کہتے ہیں، جو جلدی میں ہو، اس لیے اطمینان اور سکون کے ساتھ نہ کھائے، بلکہ غیر مطمئن ہوکر بیٹھ کر چند لقمے لگا کر اپنے کسی دوسرے اور اہم کام میں مشغول ہوجائے، اس لیے آپ نے ٹیک لگا کر یا سہارا کے ساتھ کھانا پسند نہیں کیا، لیکن چوکڑی مارنا یا آلتی پالتی مارنا ناجائز نہیں ہے، بہتر ہے کہ انسان گھٹنوں کے بل اپنے پاؤں کی پشت پر بیٹھے یا دایاں پاؤں کھڑا کرکے بائیں پاؤں پر بیٹھے۔