حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص کھاناکھائے تو اپنی انگلیوں کو چاٹ لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ ان میں سے کس میں برکت ہے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایک کھائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے، کیونکہ اسے معلوم نہیں ہے، کس حصہ میں برکت ہے۔“
عبدالرحمان بن مہدی نے کہا: ہمیں حماد نے اسی سند کے ساتھ حدیث سنائی، مگرانھوں نےکہا: "تم میں سے ہر ایک پیالہ صاف کرے۔"اور فرمایا: " تمھارے کس کھانے (کے کس حصے) میں برکت ہے، یا (فرمایا:) کس کھانے میں تمھارے لئے برکت ڈالی جاتی ہے۔"
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، اتنا فرق ہے کہ اس میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک اپنی پلیٹ تھالی صاف کر لے۔" اور فرمایا: "تمہارے کس کھانے میں برکت ہے۔“
19. باب: اگر مہمان کے ساتھ کوئی طفیلی ہو جائے تو کیا کرے؟
Chapter: What the guest should do if he is accompanied by someone who was not invited by the host; it is recommended for the host to give permission to the one who has accompanied the guest
حدثنا قتيبة بن سعيد ، وعثمان بن ابي شيبة ، وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن ابي مسعود الانصاري ، قال: كان رجل من الانصار يقال له ابو شعيب، وكان له غلام لحام، فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعرف في وجهه الجوع، فقال لغلامه ويحك اصنع لنا طعاما لخمسة نفر، فإني اريد ان ادعو النبي صلى الله عليه وسلم خامس خمسة، قال: فصنع ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فدعاه خامس خمسة واتبعهم رجل، فلما بلغ الباب، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن هذا اتبعنا، فإن شئت ان تاذن له، وإن شئت رجع"، قال: لا بل آذن له يا رسول الله.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وتقاربا في اللفظ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ، وَكَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَّامٌ، فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَرَفَ فِي وَجْهِهِ الْجُوعَ، فَقَالَ لِغُلَامِهِ وَيْحَكَ اصْنَعْ لَنَا طَعَامًا لِخَمْسَةِ نَفَرٍ، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَدْعُوَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، قَالَ: فَصَنَعَ ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَاهُ خَامِسَ خَمْسَةٍ وَاتَّبَعَهُمْ رَجُلٌ، فَلَمَّا بَلَغَ الْبَابَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا اتَّبَعَنَا، فَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ، وَإِنْ شِئْتَ رَجَعَ"، قَالَ: لَا بَلْ آذَنُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
جریر نے اعمش سے، انھوں نے ابو وائل سے، انھوں نے حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ انصار میں ایک آدمی جس کا نام ابوشعیب تھا، جس کا ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا۔ اس انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھوک معلوم ہوئی تو اپنے غلام سے کہا کہ ہم پانچ آدمیوں کے لئے کھانا تیار کر کیونکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرنا چاہتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ آدمیوں میں پانچویں ہوں گے۔ راوی کہتا ہے کہ اس نے کھانا تیار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر دعوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ میں پانچویں تھے۔ ان کے ساتھ ایک آدمی ہو گیا تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر پہنچے تو (صاحب خانہ سے) فرمایا کہ یہ شخص ہمارے ساتھ چلا آیا ہے، اگر تو چاہے تو اس کو اجازت دے، ورنہ یہ لوٹ جائے گا۔ اس نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! بلکہ میں اس کو اجازت دیتا ہوں۔
حضرت ابومسعود انصاری بیان کرتے ہیں کہ ابوشعیب نامی انصاری کا گوشت فروخت غلام تھا، انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے چہرے پر بھوک کے اثرات محسوس کر لیے تو اپنے غلام سے کہا، تم پر افسوس! ہمارے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر، کیونکہ میں پانچوں میں پانچواں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دینا چاہتا ہوں، اس نے کھانا تیار کیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پانچوں میں پانچواں آپ کو بلایا اور ایک آدمی نے ان کا پیچھا کیا تو جب دروازے پر پہنچ گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے، اگر چاہو تو اسے اجازت دے دو اور چاہو تو یہ واپس چلا جائے۔“ انصاری نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! واپس نہ جائے، کیونکہ میں اس کو اجازت دیتا ہوں۔
ابو بکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم نے ہمیں یہی حدیث ابو معاویہ سے بیان کی، نیز یہ حدیث ہمیں نصر بن علی جہضمی اور ابو سعید اشج نے بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے حدیث بیان کی، عبیداللہ بن معاذ نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، نیز ہمیں عبداللہ بن عبدالرحمان دارمی نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں محمد بن یوسف نے سفیان سے حدیث بیان کی، ان سب (ابو معاویہ، شعبہ اورسفیان) نے اعمش سے روایت کی، انھوں نے ابو وائل سے، انھوں نے ابو مسعود سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث اسی طرح بیان کی جس طرح جریر کی حدیث ہے۔ نصر بن علی نے اس حدیث کی اپنی روایت میں کہا: ہمیں ابو اسامہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش سے شقیق بن سلمہ سے، انھوں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے، پھر پوری حدیث بیان کی۔
امام صاحب یہی حدیث اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے اعمش ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس ،" ان جارا لرسول الله صلى الله عليه وسلم فارسيا كان طيب المرق، فصنع لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثم جاء يدعوه، فقال: وهذه لعائشة، فقال: لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، فعاد يدعوه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهذه قال: لا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، ثم عاد يدعوه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهذه قال: نعم في الثالثة، فقاما يتدافعان حتى اتيا منزله".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ،" أَنَّ جَارًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارِسِيًّا كَانَ طَيِّبَ الْمَرَقِ، فَصَنَعَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوهُ، فَقَالَ: وَهَذِهِ لِعَائِشَةَ، فَقَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، فَعَادَ يَدْعُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذِهِ قَالَ: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذِهِ قَالَ: نَعَمْ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَا يَتَدَافَعَانِ حَتَّى أَتَيَا مَنْزِلَهُ".
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارس سے تعلق رکھنے والا پڑوسی شوربا اچھا بناتا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شوربا تیار کیا، پھرآکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: "ان کو بھی دعوت ہے؟"اس نے کہا: نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " نہیں (مجھے بھی تمہاری دعوت قبول نہیں) وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ان کو بھی؟"اس نے کہا: نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو نہیں۔"وہ پھر دعوت دینے کے لئے آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کو بھی؟" توتیسری بار اس نے کہا: ہاں۔پھر آپ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ اس کے گھر آگئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی شوربا بہت اچھا تیار کرتا تھا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شوربہ تیار کیا، پھر وہ آپ کو بلانے آیا، تو آپ نے فرمایا: ”اور یہ؟“ یعنی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی نہیں“ اس نے دوبارہ آپ کو دعوت دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور یہ؟“ اس نے کہا: نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ اس نے آ کر آپ کو سہ بارہ دعوت دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور یہ؟“ اس نے تیسری دفعہ کہا: جی ہاں، تو آپ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے تیزی سے چل پڑے حتیٰ کہ اس کے گھر پہنچ گئے۔
20. باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہ ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے۔
Chapter: It is permissible to take someone else to the house of one who you are certain will approve of that and will not mind. It is recommended to gather to eat
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا خلف بن خليفة ، عن يزيد بن كيسان ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم او ليلة، فإذا هو بابي بكر وعمر، فقال:" ما اخرجكما من بيوتكما هذه الساعة؟"، قالا: الجوع يا رسول الله، قال:" وانا والذي نفسي بيده لاخرجني الذي اخرجكما قوموا"، فقاموا معه فاتى رجلا من الانصار، فإذا هو ليس في بيته، فلما راته المراة، قالت: مرحبا واهلا، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم اين فلان؟، قالت: ذهب يستعذب لنا من الماء إذ جاء الانصاري، فنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحبيه ثم قال: الحمد لله ما احد اليوم اكرم اضيافا مني"، قال: فانطلق فجاءهم بعذق فيه بسر وتمر ورطب، فقال: كلوا من هذه واخذ المدية، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إياك والحلوب"، فذبح لهم فاكلوا من الشاة، ومن ذلك العذق وشربوا، فلما ان شبعوا ورووا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي بكر وعمر:" والذي نفسي بيده لتسالن عن هذا النعيم يوم القيامة اخرجكم من بيوتكم الجوع، ثم لم ترجعوا حتى اصابكم هذا النعيم".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ، فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقَالَ:" مَا أَخْرَجَكُمَا مِنْ بُيُوتِكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ؟"، قَالَا: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَأَنَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا قُومُوا"، فَقَامُوا مَعَهُ فَأَتَى رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ، فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ، قَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ فُلَانٌ؟، قَالَتْ: ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنَ الْمَاءِ إِذْ جَاءَ الْأَنْصَارِيُّ، فَنَظَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَكْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي"، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَجَاءَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ، فَقَالَ: كُلُوا مِنْ هَذِهِ وَأَخَذَ الْمُدْيَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكَ وَالْحَلُوبَ"، فَذَبَحَ لَهُمْ فَأَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ، وَمِنْ ذَلِكَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا، فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمُ الْجُوعُ، ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّى أَصَابَكُمْ هَذَا النَّعِيمُ".
خلف بن خلیفہ نے یزید بن کیسان سے، انھوں نے ابوحازم سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ رات یا دن کو باہر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو پوچھا کہ تمہیں اس وقت کون سی چیز گھر سے نکال لائی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! بھوک کے مارے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں، چلو۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے دروازے پر آئے، وہ اپنے گھر میں نہیں تھا۔ اس کی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں شخص (اس کے خاوند کے متعلق فرمایا) کہاں گیا ہے؟ وہ بولی کہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عذر سے اجنبی عورت سے بات کرنا اور اس کو جواب دینا درست ہے، اسی طرح عورت اس مرد کو گھر بلا سکتی ہے جس کے آنے سے خاوند راضی ہو) اتنے میں وہ انصاری مرد آ گیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج کے دن کسی کے پاس ایسے مہمان نہیں ہیں جیسے میرے پاس ہیں۔ پھر گیا اور کھجور کا ایک خوشہ لے کر آیا جس میں گدر، سوکھی اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہنے لگا کہ اس میں سے کھائیے پھر اس نے چھری لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دودھ والی بکری مت کاٹنا۔ اس نے ایک بکری کاٹی اور سب نے اس کا گوشت کھایا اور کھجور بھی کھائی اور پانی پیا۔ جب کھانے پینے سے سیر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا کہ تم اپنے گھروں سے بھوک کے مارے نکلے اور نہیں لوٹے یہاں تک کہ تمہیں یہ نعمت ملی۔ (اس فضل پر سوال ضرور ہوگا)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک دن یا رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ کو ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ملے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”اس وقت کس بنا پر گھروں سے نکلے ہو؟“ دونوں نے جواب دیا، بھوک کے سبب، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! مجھے بھی اس چیز نے گھر سے نکالا ہے، جس نے تمہیں نکالا ہے، اٹھو“ تو وہ آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ ایک انصاری آدمی کے گھر آئے تو وہ گھر میں موجود نہیں تھا، جب اس کی بیوی نے آپ کو دیکھا، اس نے خوش آمدید کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: ”فلاں کہاں ہے؟“ اس نے کہا، وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے، اتنے میں انصاری بھی آ گیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا، پھر کہا: اللہ کا شکر ہے، آج مجھ سے زیادہ کسی کے مہمان معزز نہیں ہیں، وہ گیا اور کھجوروں کا ایک گچھا لے آیا، جس میں کچی پکی کھجوریں، خشک کھجوریں اور تازہ کھجوریں تھیں اور عرض کی: اس سے کھا لیں اور چھری پکڑ لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”دودھیاری سے احتراز کرنا۔“ اس نے بکری ذبح کی اور ان حضرات نے بکری کا گوشت اور یہ گچھا کھایا اور پانی پیا تو جب سیر اور سیراب ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا: ”اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا، تم اپنے گھر میں سے بھوک کے سبب نکلے پھر گھروں کو اس وقت تک نہیں لوٹے، جب تک تمہیں یہ نعمتیں نہیں ملیں۔“
عبدالواحد بن زیاد نے کہا: ہمیں یزید نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابوحازم نے حدیث سنائی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ایک روزحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تھے۔اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم دونوں کو کس چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟"دونوں نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کےساتھ بھیجا ہے! ہمیں بھوک نے ا پنے گھروں سےنکالا ہے۔پھر خلف بن خلیفہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس دوران کہ ابوبکر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا: ”تمہیں کس چیز نے یہاں بٹھایا ہے؟“ دونوں نے کہا: ہمیں ہمارے گھروں سے بھوک نے نکالا ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے! پھر مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کی۔
حدثني حجاج بن الشاعر ، حدثني الضحاك بن مخلد ، من رقعة عارض لي بها ثم قراه علي، قال: اخبرناه حنظلة بن ابي سفيان ، حدثنا سعيد بن ميناء ، قال: سمعت جابر بن عبد الله ، يقول: لما حفر الخندق رايت برسول الله صلى الله عليه وسلم خمصا، فانكفات إلى امراتي، فقلت لها: هل عندك شيء؟ فإني رايت برسول الله صلى الله عليه وسلم خمصا شديدا، فاخرجت لي جرابا فيه صاع من شعير ولنا بهيمة داجن، قال: فذبحتها وطحنت ففرغت إلى فراغي، فقطعتها في برمتها ثم وليت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: لا تفضحني برسول الله صلى الله عليه وسلم ومن معه، قال: فجئته فساررته، فقلت: يا رسول الله، إنا قد ذبحنا بهيمة لنا وطحنت صاعا من شعير كان عندنا، فتعال انت في نفر معك، فصاح رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال يا اهل الخندق:" إن جابرا قد صنع لكم سورا فجئت بكم"، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تنزلن برمتكم ولا تخبزن عجينتكم حتى اجيء"، فجئت وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يقدم الناس حتى جئت امراتي، فقالت: بك وبك، فقلت: قد فعلت الذي قلت لي، فاخرجت له عجينتنا، فبصق فيها وبارك ثم عمد إلى برمتنا، فبصق فيها وبارك، ثم قال:" ادعي خابزة فلتخبز معك واقدحي من برمتكم ولا تنزلوها" وهم الف فاقسم بالله لاكلوا حتى تركوه وانحرفوا، وإن برمتنا لتغط كما هي وإن عجينتنا او كما، قال الضحاك: لتخبز كما هو.حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، مِنْ رُقْعَةٍ عَارَضَ لِي بِهَا ثُمَّ قَرَأَهُ عَلَيَّ، قَالَ: أَخْبَرَنَاهُ حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا، فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي، فَقُلْتُ لَهَا: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا، فَأَخْرَجَتْ لِي جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ، قَالَ: فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتْ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي، فَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ مَعَهُ، قَالَ: فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَدْ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَتْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا، فَتَعَالَ أَنْتَ فِي نَفَرٍ مَعَكَ، فَصَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ:" إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ لَكُمْ سُورًا فَجِئْتُ بِكُمْ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِينَتَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ"، فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْدَمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي، فَقَالَتْ: بِكَ وَبِكَ، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ لِي، فَأَخْرَجْتُ لَهُ عَجِينَتَنَا، فَبَصَقَ فِيهَا وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا، فَبَصَقَ فِيهَا وَبَارَكَ، ثُمَّ قَالَ:" ادْعِي خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعَكِ وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا" وَهُمْ أَلْفٌ فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَأَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا، وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِينَتَنَا أَوْ كَمَا، قَالَ الضَّحَّاكُ: لَتُخْبَزُ كَمَا هُوَ.
حجاج بن شاعر نے کہا: ضحاک بن مخلد نے مجھے ایک رقعے سے حدیث بیان کی، اسے میرے سامنے رکھا پھر اسے پڑھا، کہا: مجھے حنظلہ بن عثمان نے اس کے بارے میں بتایا، کہا: ہمیں سعید بن میناء نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی برا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی) میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا، اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، جب خندق کھودی جا رہی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوک کا اثر محسوس کیا تو میں اپنی بیوی کی طرف لوٹا اور اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت بھوک لگی ہے، اس نے مجھے ایک چمڑے کا تھیلا پیش کیا، جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس ایک چھوٹا سا پالتو چھترا تھا، میں نے اسے ذبح کیا اور اس نے جو پیسے اور میرے ساتھ ہی اس سے فارغ ہو گئی، میں نے گوشت چھوٹا چھوٹا کر کے ہانڈی میں ڈالا، پھر واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھیوں سمیت لا کر مجھے رسوا نہ کرنا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سرگوشی کی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے اپنا ایک چھوٹا سا پالتو چھترا ذبح کیا اور بیوی نے ہمارے پاس ایک صاع جو تھے، پیس لیے ہیں تو آپ چند ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا: ”اے خندق والو! جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہاری دعوت کی ہے تو جلدی کرو“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ہانڈی ہرگز نہ اتارنا اور آٹے کی روٹیاں نہ پکانا، حتیٰ کہ میں آ جاؤں۔“ میں چل پڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے چل پڑے، حتیٰ کہ میں بیوی کے پاس پہنچ گیا، (اس کو صورت حال بتائی) اس نے کہا: تیری وجہ سے ایسا ہوا تو ہی رسوا ہو گا، میں نے کہا: میں نے تو تیری بات پر عمل کیا تھا، اس نے آپ کے سامنے گندھا ہوا آٹا پیش کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں لعاب مبارک ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ نے ہماری ہنڈیا کا رخ کیا، اس میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا: ”ایک روٹی پکانے والی بلا لو، وہ تمہارے ساتھ روٹیاں پکائے اور اپنی ہانڈی سے چمچہ سے سالن نکالنا اور اس کو چولہے سے نہ اتارنا۔“ آپ کے ساتھی ایک ہزار تھے، میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، سب نے کھایا، حتی کہ اس کو باقی چھوڑ کر چلے گئے اور ہماری ہانڈی پہلے کی طرح جوش مار رہی تھی اور ہمارا آٹا اس طرح پکایا جا رہا تھا، جو لفظ ضحاک نے کہا۔
وحدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك بن انس ، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: قال ابو طلحة لام سليم: قد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع فهل عندك من شيء؟ فقالت: نعم، فاخرجت اقراصا من شعير ثم اخذت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت ثوبي وردتني ببعضه، ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا في المسجد ومعه الناس، فقمت عليهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارسلك ابو طلحة؟"، قال: فقلت: نعم، فقال:" الطعام؟"، فقلت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه:" قوموا"، قال: فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة فاخبرته، فقال ابو طلحة يا ام سليم: قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا ما نطعمهم، فقالت: الله ورسوله اعلم، قال: فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم معه حتى دخلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هلمي ما عندك يا ام سليم"، فاتت بذلك الخبز، فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم، ففت وعصرت عليه ام سليم عكة لها، فادمته، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله ان يقول، ثم قال: ائذن لعشرة، فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة، فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة حتى اكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون رجلا او ثمانون.وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْم: قَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟"، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ:" أَلِطَعَامٍ؟"، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ:" قُومُوا"، قَالَ: فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ: قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلُمِّي مَا عِنْدَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ"، فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفُتَّ وَعَصَرَتْ عَلَيْهِ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا، فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ حَتَّى أَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ رَجُلًا أَوْ ثَمَانُونَ.
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا کہ انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ نے حضرت سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی ہے کمزورتھی۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک لگی ہے۔کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟انھوں نے کہا: ہاں، پھر انھوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی لی اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹیں، پھر ان کو میرے کپڑوں کےنیچے چھپاد یا اور اس (اوڑھنی) کا بقیہ حصہ چادر کی طرح میرے اوپر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان روٹیوں کو لے کر گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بیٹھے پایا اور آپ کےساتھ دوسرے لوگ موجود تھے، میں ان کے پا کھڑا ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھیں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے؟"میں نے عرض کی: جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا کھانے کے لئے؟" میں نے کہا: جی ہاں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنے ساتھیوں سے کہا"چلو"حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں ا ن کے آگے آگے چل پڑا، یہاں تک کہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ام سلیم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (باقی) لوگوں سمیت آگئے ہیں، اور ہمارے پاس اتنا (کھانا) نہیں ہے کہ ان کو کھلا سکیں۔انھوں نے کہا: اللہ اور اسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور (جاکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےساتھ آئے اور وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ام سلیم!جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ۔"وہ یہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں حکم دیا، ان (روٹیوں) کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے گئے۔ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ا پنا گھی کا کپہ (چمڑے کا گول برتن) ان (روٹیوں) پر نچوڑ کر سالن شامل کردیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔"انھوں (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ) نے دس آدمیوں کو اجازت دی، انھوں نے کھانا کھایا حتیٰ کہ سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "دس آدمیوں کو اجازت دو۔"انھوں نے اجازت دی، ان سب نے کھایا سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "دس آدمیوں کو اجازت دو"یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھا لیا اورسیر ہوگئے۔وہ ستر یا اسی لوگ تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمزور آواز سنی ہے، جس سے میں نے بھوک محسوس کی ہے تو کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، تو اس نے جو کی کچھ روٹیاں پیش کیں، پھر اپنی اوڑھنی لی، اور اس کے کچھ حصہ میں روٹیاں لپیٹ دیں، پھر اسے میرے کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور اوڑھنی کا باقی حصہ مجھ پر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج دیا، میں اس کو لے کر چلا گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بیٹھے پایا اور لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے، میں جا کر ان کے پاس ٹھہر گیا، (کہ اب کیسے پیش کروں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تجھے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کیا کھانے کے لیے؟“ اس نے کہا: جی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: ”اٹھو۔“ آپصلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور میں ان کے آگے چل پڑا، حتی کہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ گیا اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ساتھیوں سمیت آ رہے ہیں اور ہمارے پاس ان کو کھلانے کا انتظام نہیں ہے، ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چل پڑے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ آگے بڑھے، حتی کہ دونوں گھر میں داخل ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام سلیم! جو کچھ تیرے پاس ہے لاؤ۔“ تو اس نے وہ روٹیاں پیش کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا حکم دیا، ایسا کیا گیا، حضرت ام سلیم نے ان ٹکڑوں پر کُپہ (چمرے کا گول برتن) نچوڑا اور ان کو سالن والی بنا دیا، پھر ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ کو منظور تھی، پھر فرمایا: ”دس کو اجازت دو۔“ انہوں نے انہیں اجازت دی، انہوں نے کھایا، حتی کہ سیر ہو کر نکل گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس کو اجازت دو۔“ حتی کہ تمام لوگوں نے کھایا اور سیر ہو گئے، لوگوں کی تعداد ستر (70) یا اَسی (80) تھی۔