صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ
مشروبات کا بیان
20. باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِهِ غَيْرَهُ إِلَى دَارِ مَنْ يَثِقُ بِرِضَاهُ بِذَلِكَ وَيَتَحَقَّقُهُ تَحَقُّقًا تَامًّا وَاسْتِحْبَابِ الاِجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ:
باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہ ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 5314
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو هِشَامٍ يَعْنِي المُغِيرَةَ بْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: بَيْنَا أَبُو بَكْرٍ قَاعِدٌ وَعُمَرُ مَعَهُ إِذْ أَتَاهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا أَقْعَدَكُمَا هَاهُنَا، قَالَا: أَخْرَجَنَا الْجُوعُ مِنْ بُيُوتِنَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ خَلَفِ بْنِ خَلِيفَةَ.
عبدالواحد بن زیاد نے کہا: ہمیں یزید نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابوحازم نے حدیث سنائی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ایک روزحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تھے۔اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم دونوں کو کس چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟"دونوں نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کےساتھ بھیجا ہے! ہمیں بھوک نے ا پنے گھروں سےنکالا ہے۔پھر خلف بن خلیفہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس دوران کہ ابوبکر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا: ”تمہیں کس چیز نے یہاں بٹھایا ہے؟“ دونوں نے کہا: ہمیں ہمارے گھروں سے بھوک نے نکالا ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے! پھر مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5314 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5314
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اپنے جگری ساتھیوں کے ساتھ اپنی احتیاج و ضرورت یا بھوک کا اظہار اگر شکوہ و شکایت کے طور پر نہ ہو تو زہد و توکل کے منافی نہیں ہے اور بعض دفعہ آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر اسے حالات گزرتے تھے کہ بھوک سے تنگ آ کر گھروں سے باہر نکل آتے تھے،
تاکہ بھوک مٹانے کی کوئی صورت پیدا ہو۔
(2)
کھانے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے انسان اپنے کسی ایسے ساتھی کے گھر دو تین ساتھیوں سمیت کیا جا سکتا ہے،
جس کے بارے میں یہ یقین اور اطمینان ہو کہ اس کو ہمارے آنے سے تکلیف اور گھٹن کی بجائے مسرت اور شادمانی حاصل ہو گی اور وہ شوق سے خوش ہو کر کھانے کی دعوت دے گا اور اس کی بیوی بھی ایسے قابل احترام اور قابل اعتماد ساتھیوں کو خاوند کی غیر موجودگی میں خوش آمدید کہہ سکتی ہے اور انہیں گھر میں بٹھا سکتی ہے اور یہ صحابی حضرت ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ تھے،
جو آپ کو دیکھ کر مسرت سے جھوم اٹھے اور آپ کو ساتھیوں سمیت اپنے باغ میں لے گئے،
اس کے کھجوروں کے باغ تھے اور بہت بکریوں کے مالک تھے،
اس لیے فورا کھجوروں کا خوشہ پیش کیا اور بکری ذبح کی اور آپ نے ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دے کر ساتھیوں کو شکر کی تلقین فرمائی اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،
کھانے کے لیے کسی ایسے ساتھی کا انتخاب کرنا چاہیے جو گنجائش اور وسعت و فراخی رکھتا ہو اور اس کو بھی ساتھیوں کی آمد کو بار نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے،
انہیں اچھا کھانا پیش کرنا چاہیے اور مہمانوں کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں یہ نعمت بخشی ہے کہ میزبان نے ہمیں عمدہ کھانا اور بہترین مشروب پیش کیا ہے اور ان نعمتوں کے بارے میں قیامت کے دن باز پرس بھی ہو گی کہ ان پر کیا شکر ادا کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5314