اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا کہ انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ نے حضرت سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی ہے کمزورتھی۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک لگی ہے۔کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟انھوں نے کہا: ہاں، پھر انھوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی لی اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹیں، پھر ان کو میرے کپڑوں کےنیچے چھپاد یا اور اس (اوڑھنی) کا بقیہ حصہ چادر کی طرح میرے اوپر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان روٹیوں کو لے کر گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بیٹھے پایا اور آپ کےساتھ دوسرے لوگ موجود تھے، میں ان کے پا کھڑا ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھیں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے؟"میں نے عرض کی: جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا کھانے کے لئے؟" میں نے کہا: جی ہاں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنے ساتھیوں سے کہا"چلو"حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں ا ن کے آگے آگے چل پڑا، یہاں تک کہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ام سلیم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (باقی) لوگوں سمیت آگئے ہیں، اور ہمارے پاس اتنا (کھانا) نہیں ہے کہ ان کو کھلا سکیں۔انھوں نے کہا: اللہ اور اسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور (جاکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےساتھ آئے اور وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ام سلیم!جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ۔"وہ یہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں حکم دیا، ان (روٹیوں) کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے گئے۔ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ا پنا گھی کا کپہ (چمڑے کا گول برتن) ان (روٹیوں) پر نچوڑ کر سالن شامل کردیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔"انھوں (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ) نے دس آدمیوں کو اجازت دی، انھوں نے کھانا کھایا حتیٰ کہ سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "دس آدمیوں کو اجازت دو۔"انھوں نے اجازت دی، ان سب نے کھایا سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "دس آدمیوں کو اجازت دو"یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھا لیا اورسیر ہوگئے۔وہ ستر یا اسی لوگ تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمزور آواز سنی ہے، جس سے میں نے بھوک محسوس کی ہے تو کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، تو اس نے جو کی کچھ روٹیاں پیش کیں، پھر اپنی اوڑھنی لی، اور اس کے کچھ حصہ میں روٹیاں لپیٹ دیں، پھر اسے میرے کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور اوڑھنی کا باقی حصہ مجھ پر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج دیا، میں اس کو لے کر چلا گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بیٹھے پایا اور لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے، میں جا کر ان کے پاس ٹھہر گیا، (کہ اب کیسے پیش کروں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تجھے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کیا کھانے کے لیے؟“ اس نے کہا: جی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: ”اٹھو۔“ آپصلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور میں ان کے آگے چل پڑا، حتی کہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ گیا اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ساتھیوں سمیت آ رہے ہیں اور ہمارے پاس ان کو کھلانے کا انتظام نہیں ہے، ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چل پڑے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ آگے بڑھے، حتی کہ دونوں گھر میں داخل ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام سلیم! جو کچھ تیرے پاس ہے لاؤ۔“ تو اس نے وہ روٹیاں پیش کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا حکم دیا، ایسا کیا گیا، حضرت ام سلیم نے ان ٹکڑوں پر کُپہ (چمرے کا گول برتن) نچوڑا اور ان کو سالن والی بنا دیا، پھر ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ کو منظور تھی، پھر فرمایا: ”دس کو اجازت دو۔“ انہوں نے انہیں اجازت دی، انہوں نے کھایا، حتی کہ سیر ہو کر نکل گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس کو اجازت دو۔“ حتی کہ تمام لوگوں نے کھایا اور سیر ہو گئے، لوگوں کی تعداد ستر (70) یا اَسی (80) تھی۔