حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے اس پیالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کا مشروب پلا یا ہے۔شہد نبیذ پانی اور دودھ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس پیالہ سے ہر قسم کے مشروبات، شہید، نبیذ، پانی اور دودھ پلائے ہیں۔
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابو اسحاق (ہمدانی) سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو ہم ایک چرواہے کے پاس سے گزرے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی ہوئی تھی، انھوں (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) نے کہا: تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ دودھ دوہا، پھر میں آپ کے پاس وہ دودھ لایا، آپ نے اسے نوش فرمایا، یہاں تک کہ میں راضی ہوگیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ کے لیے نکلے، ہم ایک چرواہے کے پاس سے گزرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگ چکی تھی، تو میں نے آپ کے لیے تھوڑا سا دودھ دوہا اور اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا، آپ نے اس سے اتنا پیا کہ میں مطمئن ہو گیا۔
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا إسحاق الهمداني ، يقول: سمعت البراء ، يقول: لما اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة إلى المدينة، فاتبعه سراقة بن مالك بن جعشم، قال: فدعا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فساخت فرسه، فقال: ادع الله لي ولا اضرك، قال: فدعا الله، قال: فعطش رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمروا براعي غنم، قال ابو بكر الصديق : " فاخذت قدحا فحلبت فيه لرسول الله صلى الله عليه وسلم، كثبة من لبن فاتيته به فشرب حتى رضيت ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، يَقُولَ: لَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَأَتْبَعَهُ سُراقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَاخَتْ فَرَسُهُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي وَلَا أَضُرُّكَ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ، قَالَ: فَعَطِشَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرُّوا بِرَاعِي غَنَمٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ : " فَأَخَذْتُ قَدَحًا فَحَلَبْتُ فِيهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ فَأَتَيْتُهُ بِهِ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ ".
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابو اسحاق ہمدانی سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئےسنا: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کو آئے تو سراقہ بن مالک نے (مشرکوں کی طرف سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بددعا کی تو اس کا گھوڑا (زمین میں) دھنس گیا (یعنی زمین نے اس کو پکڑ لیا)۔ وہ بولا کہ آپ میرے لئے دعا کیجئے میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی (تو اس کو نجات ملی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے چرواہے کے قریب سے گزرے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے پیالہ لیا اور تھوڑا سا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دوہا اور لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف متوجہ ہوئے، تو سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا تعاقب کیا، آپ نے اس کے لیے بددعا کی تو اس کی گھوڑی زمین میں دھنس گئی، اس نے درخواست کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں دعا فرمائیں میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا، تو آپ نے اس کے حق میں اللہ سے دعا فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی تو ان کا گزر بکریوں کے چرواہے کے پاس سے ہوا، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، میں نے ایک پیالہ لیا اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھوڑا سا دودھ دوہا اور اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پیا کہ میں آپ کے پینے سے مطمئن ہو گیا۔
یونس نے زہری سے روایت کی، کہا: ابن مسیب نے کہا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس رات بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو پیالے لائے گئے۔ ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھا اور دودھ کا پیالہ لے لیا۔ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے آپ کو فطرت کی ہدایت کی (یعنی اسلام کی اور استقامت کی)۔ اگر آپ شراب کو لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسراء کی رات ایلیاء (بیت المقدس) میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شراب اور دودھ کے دو پیالے پیش کیے گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نظر دوڑائی اور دودھ کا پیالہ پکڑ لیا، تو آپ سے حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا: تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی فطرت کی طرف کی، اگر آپ شراب پکڑتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھٹک جاتی۔
معقل نے زہری سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (دو پیالے) لائے گئے، اسی (سابقہ حدیث) کے مانند۔انھوں (معقل) نے"ایلیاء" کا ذکر نہیں کیا۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں ”ایلیاء“ کا ذکر نہیں ہے۔
ابو عاصم ضحاک نے کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا: مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھ سے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالہ دودھ کا (مقام) نقیع سے لایا، جو ڈھانپا ہوا نہ تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اس کو ڈھانپا کیوں نہیں؟ (اگر ڈھانپنے کو کچھ نہ تھا تو) ایک آڑی لکڑی ہی اس پر رکھ لیتا۔ ابوحمید (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ ہمیں رات کے وقت مشکیزوں کو باندھنے اور دروازے بند کرنے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نقیع نامی جگہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا، جسے ڈھانپا نہیں گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اسے ڈھانپا کیوں نہیں ہے؟ خواہ اس پر لکڑی ہی رکھ دیتے۔“ ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، رات ہی کو مشکیزوں کے منہ باندھنے کا حکم دیا گیا اور دروازوں کو رات کو بند کرنے کا حکم دیا گیا۔
روح بن عبادہ نے کہا: ہمیں ابن جریج اور زکریا بن اسحاق نے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ لائے، اسی (سابقہ حدیث) کے مانند۔زکریا نے (اپنی روایت کردہ حدیث میں) حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ کا قول: "رات کے وقت" بیان نہیں کیا۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا پیالہ لائے، آگے مذکورہ بالا روایت ہے لیکن زکریا کی حدیث میں رات کے بارے میں حضرت ابوحمید کا قول بیان نہیں کیا گیا۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، واللفظ لابي كريب، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستسقى، فقال رجل: يا رسول الله الا نسقيك نبيذا؟، فقال: بلى، قال: فخرج الرجل يسعى فجاء بقدح فيه نبيذ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا خمرته ولو تعرض عليه عودا "، قال: فشرب.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَسْقَى، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَسْقِيكَ نَبِيذًا؟، فَقَالَ: بَلَى، قَالَ: فَخَرَجَ الرَّجُلُ يَسْعَى فَجَاءَ بِقَدَحٍ فِيهِ نَبِيذٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَّا خَمَّرْتَهُ وَلَوْ تَعْرُضُ عَلَيْهِ عُودًا "، قَالَ: فَشَرِبَ.
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابو صالح سے، انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ نے پانی مانگا، ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیذ نہ پلائیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیوں نہیں!"پھر وہ شخص دوڑتا ہوا گیا اور ایک پیالے میں نبیذ لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تم نے اسے ڈھانک کر کیوں نہیں دیا؟چاہے تم اس کے اوپر چوڑائی کے رخ ایک لکڑی (ہی) رکھ دیتے۔" (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا، ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم آپ کو نبیذ نہ پلائیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں۔“ وہ آدمی دوڑتا ہوا گیا اور ایک نبیذ کا پیالہ لے آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اسے ڈھانپا کیوں نہیں؟ خواہ اس پر لکڑی ہی رکھ دیتے۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا۔
وحدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، قال: جاء رجل يقال له ابو حميد بقدح من لبن من النقيع، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا خمرته ولو تعرض عليه عودا ".وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو حُمَيْدٍ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ مِنَ النَّقِيعِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا خَمَّرْتَهُ وَلَوْ تَعْرُضُ عَلَيْهِ عُودًا ".
جریر نے اعمش سے، انھوں نے سفیان ابو صالح سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص جو ابو حمید کہلاتاتھا، نقیع (مقام سے) سے دودھ کا ایک پیالہ لایا، جو ڈھانپا ہوا نہ تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اس کو ڈھانپا کیوں نہیں؟ (اگر ڈھانپنے کو کچھ نہ تھا تو) چاہے تم اس کے اوپر چوڑائی کے رخ ایک لکڑی (ہی) رکھ دیتے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ابوحمید نامی آدمی نقیع جگہ سے دودھ کا پیالہ لایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”تو نے اسے ڈھانپا کیوں نہیں؟ خواہ اس پر چوڑائی میں لکڑی رکھ دیتے۔“
12. باب: سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے، مشکیزوں کے منہ باندھنے، دروازوں کو بند کرنے،، چراغ بجھانے، بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکلالنے کے استحباب کے بیان میں۔
Chapter: It is recommended to cover vessels, tie up waterskins, close doors and mention the name of Allah over them, extinguish lamps and fires when going to sleep, and keep children and animals in after maghrib
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث، عن ابي الزبير ، عن جابر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " غطوا الإناء، واوكوا السقاء، واغلقوا الباب، واطفئوا السراج فإن الشيطان لا يحل سقاء، ولا يفتح بابا، ولا يكشف إناء، فإن لم يجد احدكم إلا ان يعرض على إنائه عودا، ويذكر اسم الله، فليفعل فإن الفويسقة تضرم على اهل البيت بيتهم "، ولم يذكر قتيبة في حديثه واغلقوا الباب.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " غَطُّوا الْإِنَاءَ، وَأَوْكُوا السِّقَاءَ، وَأَغْلِقُوا الْبَابَ، وَأَطْفِئُوا السِّرَاجَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَحُلُّ سِقَاءً، وَلَا يَفْتَحُ بَابًا، وَلَا يَكْشِفُ إِنَاءً، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا أَنْ يَعْرُضَ عَلَى إِنَائِهِ عُودًا، وَيَذْكُرَ اسْمَ اللَّهِ، فَلْيَفْعَلْ فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ تُضْرِمُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ بَيْتَهُمْ "، وَلَمْ يَذْكُرْ قُتَيْبَة فِي حَدِيثِهِ وَأَغْلِقُوا الْبَابَ.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو زبیرسے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برتنوں کو ڈھانک دو، مشکوں کا منہ بند کردو، دروازہ بند کردو، اورچراغ بجھادو، کیونکہ شیطان مشکیزے کامنہ نہیں کھولتا، وہ دروازہ (بھی) نہیں کھولتا، کسی برتن کو بھی نہیں کھولتاہے۔اگر تم میں سے کسی کو اسکے سوا اور چیز نہ ملے کہ وہ اپنے برتن پر چوڑائی کے بل لکڑی ہی رکھ دے، یا اس پر اللہ کا نام (بسم اللہ) پڑ ھ دے تو (یہی) کرلے کیونکہ چوہیا گھروالوں کے اوپر (یعنی جب وہ اس کی چھت تلے سوئے ہوتے ہیں) ان کا گھر جلادیتی ہے۔"قتیبہ نے اپنی حدیث میں: "اور دروازہ بند کردو" کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برتن کو ڈھانپ دو، مشکیزہ کا منہ باندھ دو اور دروازہ بند کر دو، چراغ بجھا دو، کیونکہ شیطان بندھا مشکیزہ نہیں کھول سکتا، بند دروازہ کھول نہیں سکتا اور ڈھانپا برتن ننگا نہیں کر سکتا، اگر تم میں سے کسی کو لکڑی رکھنے سے سوا برتن کے لیے کوئی چیز نہ ملے اور اللہ کا نام لے تو ایسا کر لے، کیونکہ چوہیا گھر والوں کے لیے ان پر ان کا گھر جلا دیتی ہے۔“ قتیبہ نے اپنی حدیث میں دروازہ بند کرنے کا ذکر نہیں کیا۔