ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔ وادی محصب میں قیام کرنا سنّت نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وادی میں صرف اس لئے قیام کیا تھا کہ یہ آپ کی روانگی کے لئے آسان جگہ تھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یہ فرمان وادی محصب میں قیام کرنا سنّت نہیں ہے۔ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ایسا فعل نہیں ہے کہ جس کی اقتداء کرنا لوگوں کے لئے واجب ہو۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام افعال اگرچہ وہ مباح ہی ہوں اُن پر سنّت کا لفظ تو بولا جاتا ہے۔ لیکن لوگ اس سنّت کی پیروی کرسکتے ہیں کیونکہ یہ مباح ہے لیکن ان پر یہ فعل واجب نہیں ہے۔ (کہ اس کام کو نہ کرنے والا گناہ گار ہوجائے یا اس پر کفّارہ واجب ہو جائے)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وادی محصب میں اُترنا کوئی ضروری چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ایک اتفاقی منزل ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ وادی محصب میں اُترنا لوگوں پر واجب نہیں ہے۔ اس طرح انھوں نے ایک چیز کی نفی کی ہے اگر چہ وہ مباح ہے جیسا کہ میں نے اس باب کے عنوان میں ذکر کیا ہے کیونکہ یقینی بات ہے کہ وادی محصب میں ٹهہرنا ایک فعل ہے اور اس فعل پر وادی کا نام محصب واقع ہوا ہے (جس کی نفی کی گئی ہے کہ محصب کوئی چیز نہیں)۔ اگر چہ یہ فعل مباح ہے واجب نہیں ہے۔
وإن لم يكن ذلك واجبا إذ الخلفاء الراشدون المهديون الذين امر النبي صلى الله عليه وسلم بالعض بالنواجذ على سنته وسنتهم قد اقتدوا بالنبي صلى الله عليه وسلم بالنزول به. وَإِنْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ وَاجِبًا إِذِ الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِيُّونَ الَّذِينَ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَضِّ بِالنَّوَاجِذِ عَلَى سُنَّتِهِ وَسُنَّتِهِمْ قَدِ اقْتَدَوْا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنُّزُولِ بِهِ.
اگرچہ یہ فعل واجب نہیں ہے لیکن مستحب اس لئے ہے کہ خلفائے راشدین مہدیین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اس وادی میں قیام کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنّت کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کی سنّت کو بھی مضبوطی سے تھامنے کا حُکم دیا ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم یہ سب حضرات وادی ابطح میں اُترتے تھے۔
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت اسی باب کے متعلق ہے، میں اسے اس سے پہلے لکھوا چکا ہوں (کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں وادی محصب میں ادا کیں اور پھر کچھ دیر سو گئے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم (منیٰ سے) روانگی والے دن دوپہر کے بعد وادی بطحاء میں اُترے۔ سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تاحیات اسی طرح کیا کرتے تھے۔ آپ نے وادی بطحاء میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں۔
سیدنا ابوجُحیفه رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وادی ابطح میں نماز عصر کی دو رکعات ادا کیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اسی باب کے متعلق ہے۔
ضد قول من يحكي لنا عنه من اهل عصرنا ان الحاج إذا قفل راجعا إلى بلده عليه إتمام الصلاة. ضِدَّ قَوْلِ مَنْ يَحْكِي لَنَا عَنْهُ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا أَنَّ الْحَاجَّ إِذَا قَفَلَ رَاجِعًا إِلَى بَلَدِهِ عَلَيْهِ إِتْمَامُ الصَّلَاةِ.
ہمارے دور کے بعض اہلِ علم کے قول کے برخلاف جو کہتا ہے حاجی جب اپنے شہر کو روانہ ہوجائے تو وہ مکمّل نماز پڑھے
سیدنا ابو جحیفه رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وادی ابطح میں حاضر ہوا جبکہ آپ اپنے سرخ خیمے میں تشریف فرما تھے۔ سیدنا ابو جحیفه رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی لیکر آئے (اور اسے تقسیم کرنا شروع کیا) پس کچھ صحابہ کو پانی مل گیا اور کچھ کو صرف چند قطرے ہی نصیب ہوئے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان پڑھی، میں نے اُن کو دیکھا کہ وہ اپنے چہرے کو دائیں اور بائیں جانب گھماتے تھے۔ پھر آپ کے لئے ایک چھوٹا نیزہ گاڑ دیا گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ نے ایک خوبصورت سرخ چوغہ یا خوبصورت سرخ جوڑا پہن رکھا تھا۔ گویا کہ میں آپ کی پنڈلی کی چمک کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپ نے اس چھوٹے نیزے کو سُترہ بنا کر ظہر اور عصر کی دو دو رکعات ادا کیں۔ عورتیں، گدھے اور کُتّے سُترے کے پیچھے سے گزرتے رہے (اور آپ نے نماز مکمّل کرلی)۔ پھر آپ مسلسل مدینہ منوّرہ پہنچنے تک دو رکعات نماز ہی پڑھتے رہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن اسحاق کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کے تمام طرق ایک دوسرے مقام پر بیان کر دیئے ہیں۔