ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر راتیں گزارنے کی اجازت دی تھی، وہ قربانی والے دن کنکریاں ماریںگے، پھر وہ عید کے دوسرے یا تیسرے دن (دو دن کی اکٹھی کنکریاں ماریںگے، پھر روانگی کے دن جمرات پر کنکریاں ماریںگے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ابوالبداح سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور جس راوی نے ابوالبداح بن عدی سے بیان کیا ہے تو اس نے ان کی نسبت ان کے دادا کی طرف کر دی ہے۔ سیدنا عاصم بن عدی عجلانی رضی اللہ عنہ ہیں جن کا لعان کا قصّہ حضرت سہل بن سعد کی روایت میں مذکور ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر عصر مغرب اور عشاء کی نمازیں وادی محصب میں پڑھیں پھر آپ کچھ دیر سو گئے پھر آپ سوار ہوکر بیت اللہ شریف پہنچے اور طواف وداع کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، اسے صرف عمرو بن حارث نے بیان کیا ہے امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب ابوموسیٰ نے اس حدیث کی قراءت مجھے سنائی۔ وہ فرماتے ہیں کہ احمد بن صالح نے یہ روایت ابن وہب کی سند سے مجھے لکھ کر ارسال کی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا، جبکہ ہم ابھی منیٰ میں تھے ہم کل خیف بنی کنانہ میں پڑاؤ ڈالیں گے ان شاء اللہ۔ جناب بندار کی روایت میں ہے جب انھوں نے قسمیں اُٹھائی تھیں بلکہ صحیح لفظ یہ ہیں کہ جہاں پر انھوں نے کفر پر اتحاد کی قسمیں اُٹھائی تھیں۔ اور یہ واقعہ اس طرح ہے کہ قریش اور کنانہ نے خیف یعنی وادی محصب میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف آپس میں قسمیں اُٹھائی تھیں کہ وہ ان سے شادی بیاہ نہیں کریںگے اور ان کے خاندان سے خرید وفروخت نہیں کریںگے حتّیٰ کہ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کردیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا روایت کی مثل بیان کرتے ہیں۔ اس میں یہ الفاظ ہیں انھوں نے آپس میں قسمیں اُٹھائیں کہ وہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے رشتہ داریاں نہیں کریںگے اور نہ ان کے ساتھ کوئی اور معاملہ کریںگے حتّیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے دشمنوں کے حوالے کردیں جناب ربیع اور یونس کی روایت میں ہے کہ انھوں نے آپس میں کفر پر قسمیں کھائیں، جناب بحر کی روایت میں ہے کہ جب انھوں نے کفر پر قسمیں اُٹھائیں۔
2114. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو منیٰ ہی میں بتادیا تھا کہ آپ وادی ابطح میں ٹھہریں گے۔ اور سیدنا ابو رافع کے اس قول سے ان کی مراد
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ وادی ابطح میں لگایا تھا اور آپ نے مجھے خیمہ لگانے کا حُکم نہیں دیا تھا۔ بس آپ تشریف لائے اور خیمے میں فروکش ہوگئے۔ یعنی آپ نے مجھے اس جگہ خیمہ لگانے کا حُکم نہیں دیا تھا۔ حضرت ابورافع کا یہ مطلب نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وادی ابطح میں خیمہ لگا ہو نے کی وجہ سے اُترے تھے۔
حدثنا محمد بن عزير الايلي ، ان سلامة حدثهم، عن عقيل ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال حين اراد ان ينفر من منى: " نحن نازلون غدا إن شاء الله بخيف بني كنانة حيث تقاسموا على الكفر" ، يعني بذلك المحصب، ثم ذكر الحديث بمثل حديث يونس سواء، قال ابو بكر: سؤال النبي صلى الله عليه وسلم اين ينزل غدا في حجته إنما هو عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، فاما آخر القصة:" لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم"، فهو عن علي بن حسين، عن عمرو بن عثمان، عن اسامة، ومعمر، فيما احسب واهما في جمعه القصتين في هذا الإسناد، وقد بينت علة هذا الخبر في كتاب الكبيرحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُزَيْرَ الأَيْلِيُّ ، أَنَّ سَلامَةَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ أَرَادَ أَنْ يَنْفِرَ مِنْ مِنًى: " نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ" ، يَعْنِي بِذَلِكَ الْمُحَصَّبَ، ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ سَوَاءً، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سُؤَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ يَنْزِلُ غَدًا فِي حَجَّتِهِ إِنَّمَا هُوَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَأَمَّا آخِرُ الْقِصَّةِ:" لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ"، فَهُوَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ، وَمَعْمَرٌ، فِيمَا أَحْسِبُ وَاهِمًا فِي جَمْعِهِ الْقِصَّتَيْنِ فِي هَذَا الإِسْنَادِ، وَقَدْ بَيَّنْتُ عِلَّةَ هَذَا الْخَبَرِ فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے روانگی کا ارادہ کرتے وقت فرمایا: ”ہم کل ان شاء اللہ، خیف بنی کنانہ میں اُتریں گے جہاں انھوں نے کفر پر اتحاد کی باہمی قسمیں اُٹھائی تھیں۔ “ آپ کی مراد وادی محصب تھی۔ پھر بقیہ روایت اوپر والی روایت کی مثل بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کہ آپ اپنے حج میں کل (مکّہ مکرّمہ میں) کہاں اُتریں گے۔ یہ روایت امام زہری نے ابوسلمہ کے واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ جبکہ اس روایت کے آخر میں مذکورہ یہ قصّہ کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوگا اور نہ کوئی کا فرکسی مسلمان کا وارث بنے گا، یہ علی بن حسین کی عمرو بن عثمان کے واسطے سے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مروی ہے۔ میرے خیال میں معمر راوی کو وہم ہوا ہے اور اس واقعات کو اس سند کے ساتھ یکجا کردیا ہے۔ میں روایت کی علت کتاب الکبیر میں بیان کردی ہے۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حجة الوداع میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، کل آپ مکّہ مکرّمہ میں کہاں تشریف فرما ہوںگے، آپ نے فرمایا: ”کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی مکان چھوڑا بھی ہے؟“ پھر فرمایا: ”ہم کل خیف بنی کنانہ میں اُتریں گے جہاں قریش نے کفر پر اتحاد کی قسمیں کھائی تھیں۔ اور وہ اس طرح کہ بنو کنانہ اور قریش نے بنی ہاشم کے خلاف آپس میں یہ عہد کیا تھا کہ ان کے ساتھ نہ نکاح کریںگے اور نہ خرید و فروخت کریںگے اور نہ انھیں پناہ دیںگے۔“ امام زہری رحمه الله فرماتے ہیں کہ خیف ایک وادی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہے اور نہ کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث بنے گا۔“
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ وادی ابطح میں لگا دیا۔ آپ نے مجھے وادی ابطح میں اُترنے کا حُکم نہیں دیا تھا پھر آپ تشریف لائے تو آپ اس خیمے میں فروکش ہوئے یہ روایت جناب نصر کی ہے اور جناب علی بن خشرم کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے وادی ابطح میں اُترنے کا حُکم نہیں دیا تھا بلکہ میں خود ہی آیا تو میں نے آپ کا خیمہ لگا دیا۔ پھر آپ بھی تشریف لے آئے اور خیمے میں فروکش ہوگئے۔ جناب عبدالجبار کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خیمہ نصب کرنے کا حُکم نہیں دیا تھا۔ بلکہ میں نے خود ہی وادی ابطح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ لگادیا تو آپ اس میں تشریف فرما ہوگئے۔ جناب عبدالجبار نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں اور سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ وہ آپ کے سامان کے نگران تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منوّرہ سے تشریف لائے تھے تو آپ نے مکّہ مکرّمہ کی بالائی جانب قیام کیا تھا۔ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ پس میں وادی ابطح میں آیا تو میں نے آپ کا خیمہ لگا دیا۔ پھر آپ بھی آ گئے اور اس میں تشریف فرما ہوگئے۔
2115. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وادی ابطح میں صرف اس لئے اترے تھے تاکہ آپ کی روانگی آسان ہو اگرچہ آپ نے منیٰ ہی میں صحابہ کرام کو بتادیا تھا کہ آپ وادی ابطح میں اتریں گے
وإن كان قد اعلمهم وهو بمنى انه نازل به مع الدليل على ان نزوله ليس من سنن الحج الذي يكون تاركه عاصيا، او يوجب ترك نزوله هديا.وَإِنْ كَانَ قَدْ أَعْلَمَهُمْ وَهُوَ بِمِنًى أَنَّهُ نَازِلٌ بِهِ مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ نُزُولَهُ لَيْسَ مِنْ سُنَنِ الْحَجِّ الَّذِي يَكُونُ تَارِكُهُ عَاصِيًا، أَوْ يُوجِبُ تَرْكُ نُزُولِهِ هَدْيًا.
اس بات کی دلیل کے بیان کے ساتھ کہ وادی ابطح میں اترنا حج کے لازمی افعال میں سے نہیں ہے کہ اس کو چھوڑنے والا گناہ گار ہو یا اس میں نہ اترنے پرایک قربانی کرنا کفّارہ واجب ہوتا ہو
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وادی ابطح میں صرف اس لئے اُترے تھے کیونکہ یہاں سے (مدینہ منوّرہ) روانہ ہونا آسان تھا لہٰذا جو شخص چاہے اس وادی میں اُترے اور جو چاہے نہ اترے۔