ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دوپہر کو طواف افاضہ کیا جب ظہر کی نماز پڑھی، پھر آپ واپس منیٰ آگئے اور ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں بسر کیں۔ جب سورج ڈھل جاتا تو آپ جمرات پر رمی کرتے۔ ہر جمرے پر سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے، آپ پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس دیر تک ٹھہرتے اور خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگتے پھر آپ تیسرے جمرے کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے۔
والدليل على ان الوقوف بعد رمي الاولى منها امامها لا خلفها، ولا عن يمينها، ولا عن شمالها، والوقوف عند الثانية ذات اليسار مما يلي الوادي مستقبل القبلة في الوقفين جميعا، ورفع اليدين في الوقفين جميعا. وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْوُقُوفَ بَعْدَ رَمْيِ الْأُولَى مِنْهَا أَمَامَهَا لَا خَلْفَهَا، وَلَا عَنْ يَمِينِهَا، وَلَا عَنْ شِمَالِهَا، وَالْوُقُوفِ عِنْدَ الثَّانِيَةِ ذَاتَ الْيَسَارِ مِمَّا يَلِي الْوَادِيَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ فِي الْوَقْفَيْنِ جَمِيعًا، وَرَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الْوَقْفَيْنِ جَمِيعًا.
اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ پہلے جمرے کو کنکری مار کر اس کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ اس کے پیچھے یا اس کے دائیں بائیں نہیں کھڑا ہونا چاہیے اور دوسرے جمرے پر کنکری مار کر اس کی بائیں جانب وادی کے قریب کھڑے ہونا چاہیے۔ پہلے اور دوسرے جمرے پر کنکری مارنے کے بعد قبلہ رخ ہوکر کھڑا ہونا چاہیے اور دونوں جگہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے چاہئیں
امام زہری رحمه الله فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد کے قریب والے جمرے کو رمی کرتے تو اُسے سات کنکریاں مارتے ہر کنکری مارتے وقت «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے، پھر آپ اُس سے آگے بڑھ کر اُس کے آگے قبلہ رُخ ہوکر کھڑے ہو جاتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے، آپ بڑی دیر تک کھڑے رہتے۔ پھر آپ دوسرے جمرے کے پاس آتے اور «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے ہوئے سات کنکریاں مارتے۔ پھر آپ وادی کے قریب بائیں جانب نیچے اُتر کر قبلہ رُخ کھڑے ہو جاتے، آپ اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعائیں مانگتے۔ پھر آپ عقبہ والے جمرہ پر آتے اور اُسے بھی سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے۔ پھر آپ واپس تشریف لے جاتے اور اس کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے۔ امام زہری رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم بن عبد اللہ کوسنا کہ وہ اپنے والد گرامی کے واسطے سے اسی طرح بیان کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح عمل کرتے تھے۔ جناب یونس کی روایت میں ہے جب آپ جمرہ عقبہ کو رمی کرتے تو ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے پھر آپ واپس تشریف لے جاتے اور اس کے پاس ٹھہرتے نہیں تھے۔ اور فرمایا کہ حضرت سالم اپنے والد بزرگوار سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے ہیں۔ باقی روایت محمد بن یحیٰی کی روایت کی طرح ہے۔
حضرت براء بنت نبہان بیان کرتی ہیں کہ یہ زمانہ جاہلیت میں ایک بت کدے کی نگران تھیں وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یوم الرؤوس (سری کھانے کے دن بارہ ذوالحجہ) کو خطبہ ارشاد فرمایا تو کہا: ”یہ کونسا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بخوبی جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا یہ مشعر حرام نہیں ہے؟“ ہم نے جواب دیا کہ کیوں نہیں۔ آپ نے پوچھا: ”آج کونسا دن ہے؟“ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا یہ ایام تشریق کا درمیانی دن نہیں ہے؟“ ہم نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس بیشک تمھارے خون“ اسحاق کی روایت میں اضافہ ہے کہ ”اور تمھاری عزّتیں اور تمہارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا آج کا دن تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں حرمت والا ہے۔“ جناب اسحاق نے یہ اضافہ بیان کیا ہے ”لہٰذا چاہیے کہ تم میں سے نزدیک والا شخص دور والے کو یہ احکام پہنچا دے۔ اے اللہ، کیا میں نے تیرے احکام پہنچا دیے، اے اللہ کیا میں نے تیرا دین پہنچا دیا۔ اے الله کیا میں نے تیری شریعت اور رسالت ان تک پہنچا دی۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جعرانہ مقام سے احرام باندھ کر عمرہ کرکے واپس تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر روانہ کیا، لہٰذا ہم اُن کی قیادت میں روانہ ہوئے حتّیٰ کہ جب ہم عرج مقام پر پہنچے تو صبح کی اذان ہوئی، پھر جب وہ تکبیر کہنے کے لئے سیدھے کھڑے ہوئے تو اُنھوں نے اپنے پیچھے اونٹ کی بلبلا ہٹ سنی، لہٰذا وہ تکبیر کہنے سے رک گئے۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا، پھر جب روانگی کا پہلا دن آیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر لوگوں کو خطبہ دیا اور اُنھیں روانگی اور رمی کے مسائل بتائے اور اُنھیں ان کے مناسک حج سکھائے، جب وہ خطبہ دیکر فارغ ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر لوگوں کو پوری سورة البراءت سنائی (جس میں مشرکین سے اعلان لاتعلقی اور ان کے حج کرنے پر پابندی وغیرہ کے احکامات تھے)۔
جناب ابوالبداح بن عاصم بن عدی اپنے والد گرامی سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو رات کے وقت رمی کرنے اور (دو دنوں کی) اکٹھی رمی کرنے کی اجازت دی ہے۔
سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو اجازت دی کہ وہ (دو دن کی اکٹھی) کنکریاں ایک دن مارلیں اور ایک دن ترک کردیں اور اپنے اونٹ چرائیں۔
2111. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو ایام تشریق کے دنوں میں رخصت دی ہے کہ وہ ایک دن رمی کرلیں اور دوسرے دن جانور چرائیں۔
ويرعوا يوما في يومين من ايام التشريق، اليوم الاول يرعوا فيه، ويرموا يوم الثاني، ثم يرموا يوم النفر، لا انه رخص لهم في ترك رمي الجمار يوم النحر، ولا يوم النفر الآخر، وإنهم إنما يجمعون بين رمي اول يوم من ايام التشريق واليوم الثاني فيرمونها في احد اليومين، إما يوم الاول وإما يوم الثاني من ايام التشريق. وَيَرْعُوا يَوْمًا فِي يَوْمَيْنِ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، الْيَوْمِ الْأَوَّلِ يَرْعُوا فِيهِ، وَيَرْمُوا يَوْمَ الثَّانِي، ثُمَّ يَرْمُوا يَوْمَ النَّفْرِ، لَا أَنَّهُ رَخَّصَ لَهُمْ فِي تَرْكِ رَمْيِ الْجِمَارِ يَوْمَ النَّحْرِ، وَلَا يَوْمَ النَّفْرِ الْآخَرِ، وَإِنَّهُمْ إِنَّمَا يَجْمَعُونَ بَيْنَ رَمْيِ أَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ وَالْيَوْمِ الثَّانِي فَيَرْمُونَهَا فِي أَحَدِ الْيَوْمَيْنِ، إِمَّا يَوْمُ الْأَوَّلِ وَإِمَّا يَوْمُ الثَّانِي مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ.
ایام تشریق میں سے پہلے دن جانور چراتے رہیں دوسرے دن (اکٹھی) رمی کرلیں۔ پھر روانگی کے دن رمی کرلیں، یہ مطلب نہیں کہ آپ نے انہیں قربانی کے دن یا روانگی کے دن رمی چھوڑنے کی رخصت دی ہے۔ بلکہ آپ نے انہیں یہ رخصت دی ہے کہ وہ ایام تشریق کے پہلے دو دنوں کر رمی اکٹھی کرلیں گے، چاہے ایام تشریق کے پہلے دن کرلیں چاہے دوسرے دن کرلیں