ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
حدثنا بندار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا جعفر ، حدثني ابي ، قال: اتيت جابر بن عبد الله، وحدثنا عبد الجبار بن العلاء ، والزعفراني ، قال: حدثنا سفيان ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر ، قال:" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم من كل جزور ببضعة، فجعلت في قدر فطبخت، واكلوا من اللحم، وحسوا من المرق" ، هذا للحسن الزعفراني، قال ابو بكر: سال سائل عن الاكل من الهدي الواجب اياكل صاحبها منها؟ فقلت: إذا نحر القارن والمتمتع بدنة، او بقرة، او شركا في بدنة او بقرة اكثر من سبعها، فله ان ياكل مما زاد على سبع البدنة او البقرة، لان الواجب عليه في هدي القران والمتمتع سبع إحداهما، إلا عند من يجيز البدنة عن عشرة على ما بينت في خبر المسور، ومروان، وخبر عكرمة، عن ابن عباس، او شاة تامة فما زاد على سبع بدنة او بقرة، فهو متطوع به، وله ان ياكل مما هو متطوع به من الزيادة، كما يضحي متطوعا بالاضحية، فله ان ياكل من ضحيته، وعلى هذا المعنى علمي اكل النبي صلى الله عليه وسلم من لحوم بدنه، لانه نحر مائة بدنة، وإنما كان الواجب عليه إن كان قارنا سبع بدنة إلا عند من يجيز البدنة عن عشرة لا اكثر، وهو متطوع بالزيادة فجعل من كل بعير بضعة في قدر فحسا من المرق، واكل من اللحم، وإن ذبح لتمتعه او لقرانه لم يكن عندي ان ياكل منها، والعلم عندي كالمحيط ان كل من وجب عليه في ماله شيء لسبب من الاسباب لم يجز له ان ينتفع بما وجب عليه في ماله ولا معنى لقول قائل إن قال: يجب عليه هدي، وله ان ياكل او بعضه، لان المرء إنما له ان ياكل مال نفسه، او مال غيره بإذن مالكه، فإن كان الهدي واجبا عليه، فمحال ان يقال واجب عليه، وهو مال له ياكله، وقول هذه المقالة يوجب ان المرء إذا وجبت عليه صدقة في ماشيته ان له ان يذبحها، فياكلها، وإن وجبت عليه عشر حب فله ان يطحنه، وياكله، وإن وجب عليه عشر ثمار فله ان ياكله، وهذا لا يقوله من يحسن الفقهحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَالزَّعْفَرَانِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ:" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُلِّ جَزُورٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ، وَأَكَلُوا مِنَ اللَّحْمِ، وَحَسَوْا مِنَ الْمَرَقِ" ، هَذَا لِلْحَسَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَأَلَ سَائِلٌ عَنِ الأَكْلِ مِنَ الْهَدْيِ الْوَاجِبِ أَيَأْكُلُ صَاحِبُهَا مِنْهَا؟ فَقُلْتُ: إِذَا نَحَرَ الْقَارِنُ وَالْمُتَمَتِّعُ بَدَنَةً، أَوْ بَقَرَةً، أَوْ شِرْكًا فِي بَدَنَةٍ أَوْ بَقَرَةٍ أَكْثَرُ مِنْ سُبْعِهَا، فَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِمَّا زَادَ عَلَى سُبْعِ الْبَدَنَةِ أَوِ الْبَقَرَةِ، لأَنَّ الْوَاجِبَ عَلَيْهِ فِي هَدْيِ الْقِرَانِ وَالْمُتَمَتِّعِ سُبْعُ إِحْدَاهُمَا، إِلا عِنْدَ مَنْ يُجِيزُ الْبَدَنَةَ عَنْ عَشَرَةٍ عَلَى مَا بَيَّنْتُ فِي خَبَرِ الْمِسْوَرِ، وَمَرْوَانَ، وَخَبَرِ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَوْ شَاةً تَامَّةً فَمَا زَادَ عَلَى سُبْعِ بَدَنَةٍ أَوْ بَقَرَةٍ، فَهُوَ مُتَطَوِّعٌ بِهِ، وَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِمَّا هُوَ مُتَطَوِّعٌ بِهِ مِنَ الزِّيَادَةِ، كَمَا يُضَحِّي مُتَطَوِّعًا بِالأُضْحِيَّةِ، فَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ ضَحِيَّتِهِ، وَعَلَى هَذَا الْمَعْنَى عِلْمِي أَكْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ لُحُومِ بُدْنِهِ، لأَنَّهُ نَحَرَ مِائَةَ بَدَنَةٍ، وَإِنَّمَا كَانَ الْوَاجِبُ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ قَارِنًا سُبْعَ بَدَنَةٍ إِلا عِنْدَ مَنْ يُجِيزُ الْبَدَنَةَ عَنْ عَشَرَةٍ لا أَكْثَرَ، وَهُوَ مُتَطَوِّعٌ بِالزِّيَادَةِ فَجَعَلَ مِنْ كُلِّ بَعِيرٍ بَضْعَةٍ فِي قِدْرٍ فَحَسَا مِنَ الْمَرَقِ، وَأَكَلَ مِنَ اللَّحْمِ، وَإِنْ ذَبَحَ لِتَمَتُّعِهِ أَوْ لِقِرَانِهِ لَمْ يَكُنْ عِنْدِي أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، وَالْعِلْمُ عِنْدِي كَالْمُحِيطِ أَنَّ كُلَّ مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ شَيْءٌ لِسَبَبٍ مِنَ الأَسْبَابِ لَمْ يَجُزْ لَهُ أَنْ يَنْتَفِعَ بِمَا وَجَبَ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ وَلا مَعْنَى لِقَوْلِ قَائِلٍ إِنْ قَالَ: يَجِبُ عَلَيْهِ هَدْيٌ، وَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ أَوْ بَعْضَهُ، لأَنَّ الْمَرْءَ إِنَّمَا لَهُ أَنْ يَأْكُلَ مَالَ نَفْسِهِ، أَوْ مَالَ غَيْرِهِ بِإِذْنِ مَالِكِهِ، فَإِنْ كَانَ الْهَدْيُ وَاجِبًا عَلَيْهِ، فَمُحَالٌ أَنْ يُقَالَ وَاجِبٌ عَلَيْهِ، وَهُوَ مَالٌ لَهُ يَأْكُلُهُ، وَقَوْلُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ يُوجِبُ أَنَّ الْمَرْءَ إِذَا وَجَبَتْ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ فِي مَاشِيَتِهِ أَنَّ لَهُ أَنْ يَذْبَحَهَا، فَيَأْكُلَهَا، وَإِنْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ عُشْرُ حَبٍّ فَلَهُ أَنْ يَطْحَنَهُ، وَيَأْكُلَهُ، وَإِنْ وَجَبَ عَلَيْهِ عُشْرُ ثِمَارٍ فَلَهُ أَنْ يَأْكُلَهُ، وَهَذَا لا يَقُولُهُ مَنْ يُحْسِنُ الْفِقْهَ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا کہ قربانی کے ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک ٹکڑا لیکر ہنڈیا میں ڈالا جائے چنانچہ وہ گوشت پکا دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھیوں نے وہ گوشت کھایا اور شوربه پیا۔ یہ روایت حسن زعفرانی کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا، کیا حج میں واجب قربانی کرنے والا اس قربانی کے گوشت میں سے کھا سکتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جب حج تمتع یا حج قران کرنے والا ایک اونٹ نحر کرے یا ذبح کرے یا اونٹ اور گائے کے ساتویں حصّے سے زیادہ کی قربانی کرے تو وہ ساتویں حصّے سے زائد گوشت میں سے کھا سکتا ہے کیونکہ حج تمتع اور قران کرنے والے پر واجب اونٹ یا گائے کا ساتواں حصّہ قربان کرنا ہے یا جن علماء کے نزدیک اونٹ دس افراد کی طرف سے نحر ہوسکتا ہے اُن کے نزدیک حج تمتع اور قران کرنے والے حاجی پر دسواں حصّہ اونٹ کا واجب ہے۔ جیسا کہ سیدنا مسور، مروان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی روایات میں، میں واضح کر چکا ہوں یا اس حاجی پر ایک مکمّل بکرا ذبح کرنا واجب ہے لہٰذا اونٹ یا گائے کے ساتویں حصّے سے زائد قربانی کرنے والا اس نفل میں سے کھا سکتا ہے جیسا کہ عید پر نفلی قربانیاں کرنے والا اس میں سے کھا سکتا ہے میرے علم کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی لحاظ سے اپنی قربانی کا گوشت کھایا ہے کیونکہ آپ نے سو اونٹ نحر کے تھے۔ یقیناً آپ پر قران کی وجہ سے اونٹ کا ساتواں یا دسواں حصّہ قربانی کرنا واجب تھا۔ اس سے زائد جتنے اونٹ آپ نے قربان کیے وہ سب نفلی تھے۔ لہٰذا آپ نے ان میں سے ایک ایک ٹکڑا لیکر ہنڈیا میں ڈالا اور اسے پکا کر شوربہ پیا اور گوشت کھایا لیکن اگر آپ حج قران یا تمتع کے لئے صرف واجب مقدار میں قربانی کرتے تو میرے نزدیک اس میں سے گوشت کھانا جائز نہیں تھا، میرے نزدیک یہ بات یقینی ہے کہ جس شخص کے مال میں کوئی حق واجب ہو جائے تو وہ محض اس واجب ہونے والے مال سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے تو اس کی بات ناقابل قبول ہوگی کہ اس پر حج کی قربانی واجب ہے لیکن وہ اس کا سارا یا کچھ گوشت کھا سکتا ہے کیونکہ انسان اپنا مال خود کھا سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کا مال اُس کی اجازت کے ساتھ کھا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس پر حج کی قربانی واجب ہو تو یہ کہنا محال ہے کہ یہ قربانی اس پر واجب ہے لیکن یہ اسی کا مال ہے اس لئے اسے کھا سکتا ہے اس قول کی زد میں یہ مسئلہ آئے گا کہ جس شخص کے جانوروں میں زکوٰۃ واجب ہو وہ شخص زکوٰة کا جانور ذبح کرکے کھا سکتا ہے اور اگر اس کے اناج میں عشر واجب ہو تو وہ اسے پیس کر کھا سکتا ہے اور اگر اس کے پھلوں میں زکوٰۃ واجب ہو تو وہ اس پھل کو کھا سکتا ہے۔ لیکن دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی شخص ایسی بات نہیں کرسکتا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے دو اونٹ قربانی کے لئے اپنے ساتھ لیے تو وہ گم ہوگئے، پھر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دو اونٹ دیئے جو آپ نے نحر کر دیئے پھر پہلے دو اونٹ بھی مل گئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ بھی نحر کر دیئے، پھر فرمایا کہ (گمشدہ) اونٹوں کی قربانی کا یہی مسنون طریقہ ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (عمرہ کرکے احرام کھولنے کے بارے میں) لوگوں میں بہت زیادہ باتیں ہوگئیں۔ ہم صرف حج کی نیت سے آئے تھے حتّیٰ کہ جب احرام کھولنے میں چند دن ہی رہ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (عمرہ کرکے) احرام کھولنے کا حُکم دے دیا۔ (ہم آپس میں کہنے لگے) کیا ہم میں سے کوئی شخص (حج کے لئے) عرفہ اس حالت میں جائیگا کہ اس کی شرمگاہ سے منی کے قطرے نکل رہے ہوںگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں معلوم ہوئیں تو آپ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے لوگو تمہیں اللہ کی قسم، کیا تم جانتے ہو کہ میں الله کی قسم، تم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کو جانتا ہوں اور تم سب سے بڑھ کر اُس سے ڈرتا ہوں۔ اگر مجھے اس معاملے کا پہلے علم ہوتا جو بعد میں ہوا ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانورنہ لاتا اور میں بھی دیگر لوگوں کی طرح (عمرہ کرکے) احرام کھول دیتا۔ لہٰذا جس شخص کے پاس قربانی نہ ہو تو وہ تین روزے ادھر ہی رکھ لے اور سات روزے واپس اپنے گھر جا کر رکھ لے، اور جسے قربانی کا جانور مل جائے تو وہ قربانی کرے۔ چنانچہ ہم سات افراد کی طرف سے ایک اونٹ نحر کرتے تھے۔
وقال عطاء: قال ابن عباس: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قسم يومئذ في اصحابه غنما فاصاب سعد بن ابي وقاص تيسا، فذبحه عن نفسه، فلما وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة امر ربيعة بن امية بن خلف، فقام تحت ثدي ناقته، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اصرخ ايها الناس، هل تدرون اي شهر هذا؟" قالوا: الشهر الحرام، قال:" فهل تدرون اي بلد هذا؟" قالوا: البلد الحرام، قال:" فهل تدرون اي يوم هذا؟" قالوا: الحج الاكبر، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله قد حرم عليكم دماءكم، واموالكم كحرمة شهركم هذا، وكحرمة بلدكم هذا، وكحرمة يومكم هذا"، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حجه، وقال حين وقف بعرفة: هذا الموقف، كل عرفة موقف، وقال حين وقف على قزح: هذا الموقف، وكل مزدلفة موقف" .وَقَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَ يَوْمَئِذٍ فِي أَصْحَابِهِ غَنَمًا فَأَصَابَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ تَيْسًا، فَذَبَحَهُ عَنْ نَفْسِهِ، فَلَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ أَمَرَ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، فَقَامَ تَحْتَ ثَدْيِ نَاقَتِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اصْرُخْ أَيُّهَا النَّاسُ، هَلْ تَدْرُونَ أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟" قَالُوا: الشَّهْرُ الْحَرَامُ، قَالَ:" فَهَلْ تَدْرُونَ أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟" قَالُوا: الْبَلَدُ الْحَرَامُ، قَالَ:" فَهَلْ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟" قَالُوا: الْحَجُّ الأَكْبَرِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ كَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا، وَكَحُرْمَةِ بَلَدِكُمْ هَذَا، وَكَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا"، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّهُ، وَقَالَ حِينَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ: هَذَا الْمَوْقِفُ، كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَقَالَ حِينَ وَقَفَ عَلَى قُزَحٍ: هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ" .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحجہ کے دن اپنے صحابہ میں بکریاں تقسیم کیں۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو ایک بکرا ملا جو اُنہوں نے اپنی طرف سے ذبح کردیا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں کھڑے ہوئے تو آپ نے سیدنا ربیعہ بن امیہ بن خلف رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا تو وہ آپ کی اونٹنی کے پستانوں کے قریب کھڑے ہوگئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”لوگوں کو پکار کر کہو کہ اے لوگو، کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا کہ حرمت والا مہینہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کون سا شہر ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا کہ حرمت والا (مکّہ مکرّمہ) شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کونسا دن ہے؟“ صحابہ نے جواب دیا کہ حج اکبر کا دن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے تمھارے خون اور تمھارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام کر دیئے ہیں جس طرح تمھارا یہ مہینہ حرمت والا ہے، جیسے تمھارا یہ شہر حرمت والا ہے اور جس طرح تمھارا یہ آج کا دن حرمت والا ہے۔“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج ادا کیا اور جب آپ عرفات میں ٹھہرے تو فرمایا: ”یہ وقوف کی جگہ ہے۔ پورا عرفات ہی وقوف کی جگہ ہے۔“ اور جب آپ مقام قزح پر کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”میں ادھر ٹھہرا ہوں اور سارا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔“
مع الدليل على ان شعر بني آدم ليس بنجس بعد الحلق او التقصير. مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ شَعْرَ بَنِي آدَمَ لَيْسَ بِنَجَسٍ بَعْدَ الْحَلْقِ أَوِ التَّقْصِيرِ.
اس بات کی دلیل کا ساتھ کہ سر منڈوانے یا بال کتروانے کے بعد انسان کے بال نجس نہیں ہوتے
سیدنا انس بن مالک صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پر رمی کرلی اور اپنا اونٹ نحر کرلیا تو آپ نے حجام کو اپنے سر کے دائیں جانب والے بال دیئے تو اُس نے وہ مونڈھ دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بال سیدنا ابوطلہ رضی اللہ عنہ کو دے دیئے۔ پھر آپ نے حجام کو بائیں جانب کے بال دیئے تو اُس نے وہ بھی مونڈھ دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بال بھی سیدنا ابوطلہ رضی اللہ عنہ کو دیئے اور انھیں حُکم دیا کہ وہ یہ بال لوگوں میں تقسیم کردیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے الله، بال منڈوانے والوں کے گناہ معاف فرما۔“ صحابہ نے عرض کی کہ بال کتروانے والوں کے لئے بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ» اے اللہ، بال منڈوانے والوں کی بخشش فرما“ صحابہ نے عرض کیا کہ بال کتروانے والوں کے لئے بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”بال منڈوانے والوں کو معاف فرما۔“ پھر فرمایا: ”اور بال کتروانے والوں کو بھی معاف فرما۔“
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن بكير ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني موسى بن عقبة ، عن نافع ، عن ابن عمر انه اخبره،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حلق في حجة الوداع" ، وزعموا ان الذي حلق النبي صلى الله عليه وسلم معمر بن عبد الله بن نضلة بن عوف بن عبيد بن عويج بن عدي بن كعب، قال ابو بكر: إن النبي صلى الله عليه وسلم حلق من الجنس الذي نقول: إن العرب تضيف الفعل إلى الآمر كما تضيفه إلى الفاعل، إذ العلم محيط ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يتول حلق راس نفسه بيده بل امر غيره، فحلق راسه، فاضيف الفعل إليه إذ هو الآمر بهحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بُكَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلَقَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ" ، وَزَعَمُوا أَنَّ الَّذِي حَلَقَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعْمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَضْلَةَ بْنِ عَوْفِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُوَيجِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلَقَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الْعَرَبَ تُضِيفُ الْفِعْلَ إِلَى الآمِرِ كَمَا تُضِيفُهُ إِلَى الْفَاعِلِ، إِذِ الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَتَوَلَّ حَلْقَ رَأْسِ نَفْسِهِ بِيَدِهِ بَلْ أَمَرَ غَيْرَهُ، فَحَلَقَ رَأْسَهُ، فَأُضِيفَ الْفِعْلُ إِلَيْهِ إِذْ هُوَ الآمِرُ بِهِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں اپنے سر کے بال منڈوائے۔ صحابہ کرام کا کہنا ہے کہ جس شخص نے آپ کے بال مونڈے تھے وہ معمر بن عبداللہ بن نظلہ بن عوف بن عبيد بن عون بن عدی بن کعب ہے۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بال مونڈے تھے۔ یہ اسی جنس سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ عرب لوگ کام کی نسبت اسے سرانجام دینے کا حُکم دینے والے کی طرف بھی کرتے ہیں جیسا کہ وہ کام کرنے والے کی طرف اس کی نسبت کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بال خود نہیں مونڈے تھے بلکہ آپ نے ایک دوسرے شخص کو حُکم دیا تھا تو اُس نے آپ کے سر کے بال مونڈے تھے۔ لہٰذا اس کام کی نسبت آپ کی طرف کی گئی کیونکہ آپ نے اس کا حُکم دیا تھا۔
مع الدليل على ان الاظافر إذا قصت لم يكن حكمها حكم الميتة، ولا كانت نجسا كما توهم بعض اهل العلم ان ما قطع من الحي فهو ميت، وخبر ابي واقد الليثي إنما قال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما قطع من البهيمة وهي حية فهو ميتة "، عند ذكر اهل الجاهلية في قطعهم إليات الغنم وجبهم اسنمة الإبل، فكان قول النبي صلى الله عليه وسلم جوابا عن هذين الفعلين وما يشبههما وهو في معانيهما، والله اعلم.مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْأَظَافِرَ إِذَا قُصَّتْ لَمْ يَكُنْ حُكْمُهَا حُكْمَ الْمَيْتَةِ، وَلَا كَانَتْ نَجِسًا كَمَا تَوَهَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ مَا قُطِعَ مِنَ الْحَيِّ فَهُوَ مَيِّتٌ، وَخَبَرُ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهُوَ مَيْتَةٌ "، عِنْدَ ذِكْرِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ فِي قَطْعِهِمْ إِلْيَاتِ الْغَنَمِ وَجَبِّهِمْ أَسْنِمَةِ الْإِبِلِ، فَكَانَ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَوَابًا عَنْ هَذَيْنِ الْفِعْلَيْنِ وَمَا يُشْبِهُهُمَا وَهُوَ فِي مَعَانِيهِمَا، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایک انصاری ساتھی کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قربان گاہ میں حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کے بال ایک کپڑے میں منڈوائے۔ آپ نے وہ بال انھیں دیئے تو انھوں نے کچھ صحابہ کرام میں تقسیم کر دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ناخن ترشوائے تو وہ بھی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی کو دے دیئے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے بال مبارک مہندی یا کتم بوٹی سے رنگے ہوئے ہمارے پاس محفوظ ہیں۔