ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
مع الدليل على ان الاظافر إذا قصت لم يكن حكمها حكم الميتة، ولا كانت نجسا كما توهم بعض اهل العلم ان ما قطع من الحي فهو ميت، وخبر ابي واقد الليثي إنما قال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما قطع من البهيمة وهي حية فهو ميتة "، عند ذكر اهل الجاهلية في قطعهم إليات الغنم وجبهم اسنمة الإبل، فكان قول النبي صلى الله عليه وسلم جوابا عن هذين الفعلين وما يشبههما وهو في معانيهما، والله اعلم.مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْأَظَافِرَ إِذَا قُصَّتْ لَمْ يَكُنْ حُكْمُهَا حُكْمَ الْمَيْتَةِ، وَلَا كَانَتْ نَجِسًا كَمَا تَوَهَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ مَا قُطِعَ مِنَ الْحَيِّ فَهُوَ مَيِّتٌ، وَخَبَرُ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهُوَ مَيْتَةٌ "، عِنْدَ ذِكْرِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ فِي قَطْعِهِمْ إِلْيَاتِ الْغَنَمِ وَجَبِّهِمْ أَسْنِمَةِ الْإِبِلِ، فَكَانَ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَوَابًا عَنْ هَذَيْنِ الْفِعْلَيْنِ وَمَا يُشْبِهُهُمَا وَهُوَ فِي مَعَانِيهِمَا، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایک انصاری ساتھی کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قربان گاہ میں حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کے بال ایک کپڑے میں منڈوائے۔ آپ نے وہ بال انھیں دیئے تو انھوں نے کچھ صحابہ کرام میں تقسیم کر دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ناخن ترشوائے تو وہ بھی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی کو دے دیئے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے بال مبارک مہندی یا کتم بوٹی سے رنگے ہوئے ہمارے پاس محفوظ ہیں۔