ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
والدليل على ان سبع بدنة وسبع بقرة مما استيسر من الهدي، إذ الله- عز وجل- اوجب على المتمتع ما استيسر من الهدي إذا وجده.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ سُبْعَ بَدَنَةٍ وَسُبْعَ بَقَرَةٍ مِمَّا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، إِذِ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- أَوْجَبَ عَلَى الْمُتَمَتِّعِ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ إِذَا وَجَدَهُ.
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اونٹ یا گائے کے ساتویں حصّے میں شریک ہونا حاجیوں کے لئے آسانی اور سہولت کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حج تمتع کرنے والے حاجی پر میسر قربانی ادا کرنے کا حُکم واجب کیا ہے
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں حج تمتع کرتے تھے۔ جناب بندار کی روایت میں ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا تو ہم سات افراد کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کرتے تھے۔ ہم سات آدمی اس میں شریک ہوتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی ان ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے قربان کی جنھوں نے عمرہ کیا تھا (یعنی حج تمتع کیا تھا)۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ہم منیٰ میں تھے تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا، یہ کیا گوشت ہے؟ صحابہ نے عرض کیا، یہ گائے کا گوشت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔
إذ نساء النبي صلى الله عليه وسلم في حجته كن متمتعات خلا عائشة التي صارت قارنة لإدخالها الحج على العمرة، لما لم يمكنها الطواف والسعي لعلة الحيضة التي حاضت قبل ان تطوف وتسعى لعمرتها. إِذْ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجَّتِهِ كُنَّ مُتَمَتِّعَاتٍ خَلَا عَائِشَةَ الَّتِي صَارَتْ قَارِنَةً لِإِدْخَالِهَا الْحَجَّ عَلَى الْعُمْرَةِ، لَمَّا لَمْ يُمْكِنْهَا الطَّوَافُ وَالسَّعْيُ لِعِلَّةِ الْحَيْضَةِ الَّتِي حَاضَتْ قَبْلَ أَنْ تَطُوفَ وَتَسْعَى لِعُمْرَتِهَا.
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے حج تمتع کیا تھا، سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے جنہوں نے حج قران کیا تھا کیونکہ انہوں نے عمرے کے بجائے حج کا احرام باندھ لیا تھا کیونکہ حیض کی وجہ سے وہ عمرے کا طواف اور سعی نہیں کرسکتی تھیں (اس طرح تمام ازواج کے لئے ھدی لازم تھی، لیکن حدیث میں لفظ ضحیٰ آیا ہے (کہ آپ نے سب ازواج کی طرف سے قربانی کی)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے قربان کی۔ یہ الفاظ جناب عبدالجبار اور علی کی روایت کے ہیں۔ جناب ابوموسیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مکّہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی مقام سرف پر جب حائضہ ہوگئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: ”بیت اللہ شریف کے طواف کے علاوہ باقی تمام اعمال اسی طرح کرتی رہو جس طرح دیگر حاجی کرتے ہیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر جب ہم منیٰ میں تھے تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے ذبح کی ہے۔
2055. اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی اس روایت ”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات افراد کی طرف سے ایک اونٹ نحرکیا“ میں ایک اونٹ کی قربانی میں سات سے زیادہ افراد کی شرکت کی ممانعت نہیں ہے۔
وهذا من الجنس الذي كنت اعلمت في غير موضع من كتبنا ان العرب قد تذكر عدد الشيء لا تريد نفيا لما زاد عن ذلك العدد. وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي كُنْتُ أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْعَرَبَ قَدْ تَذْكُرُ عَدَدَ الشَّيْءِ لَا تُرِيدُ نَفْيًا لِمَا زَادَ عَنْ ذَلِكَ الْعَدَدِ.
یہ مسئلہ اسی قسم سے ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر ذکر کر چکا ہوں کہ عرب لوگ کبھی کسی چیز کا ایک عدد ذکر کرتے ہیں لیکن اس عدد سے زائد کی نفی مراد نہیں لیتے۔
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے حدیبیہ والے سال بیت اللہ شریف کی زیارت (عمرے) کے لئے نکلے، آپ کا جنگ کرنے کا ارادہ نہیں تھا، آپ نے اپنے ساتھ ستّر اونٹ قربانی کے لئے لے لیے اور لوگوں کی تعداد سات سو تھی، اس طرح ہر اونٹ دس افراد کی طرف سے ایک اونٹ قربانی تھی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہ کی تعداد چودہ سو تھی۔
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان . وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا ابن عيينة ، عن الزهري ، عن عروة ، عن المسور بن مخرمة ، ومروان ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج عام الحديبية في بضع عشرة مائة من اصحابه، فلما كان بذي الحليفة قلد الهدي واشعره، فاحرم منها" ، فذكر الحديث، قال ابو بكر: في خبر ابن إسحاق: ساق معه الهدي سبعين بدنة، كان الناس سبعمائة رجل، يريد سبعمائة رجل الذين نحر عنهم السبعين البدنة، لا ان جميع اصحابه الذين كانوا معه بالحديبية كانوا سبعمائة رجل من الجنس الذي نقول: إن اسم الناس قد يقع على بعض الناس، كقوله تعالى: الذين قال لهم الناس إن الناس قد جمعوا لكم سورة آل عمران آية 173، فالعلم محيط ان كل الناس لم يقولوا، ولا كل الناس قد جمعوا لهم، وكذلك قوله: ثم افيضوا من حيث افاض الناس سورة البقرة آية 199، فالعلم محيط ان جميع الناس لم يفيضوا من عرفات، وإنما اراد بقوله: افاض الناس بعض الناس لا جميعهم، وهذا باب طويل ليس هذا موضعه، وخبر ابن عيينة يصرح بصحة هذا التاويل، الا تسمعه قال في الخبر: وكانوا بضع عشرة مائة، فاعلم ان جميع اهل الحديبية كانوا اكثر من الف وثلاث مائة إذ البضع ما بين الثلاث إلى العشر، وهذا الخبر في ذكر عددهم شبيه بخبر ابي سفيان، عن جابر، انهم كانوا بالحديبية اربع عشرة مائة، فهذا الخبر يصرح ايضا انهم كانوا الفا واربعمائة، فدلت هذه اللفظة على ان قوله في خبر ابن إسحاق: وكان الناس سبعمائة رجل، وكانوا بعض الناس الذين كانوا مع النبي صلى الله عليه وسلم بالحديبية لا جميعهم، فعلى هذا التاويل وهذه الادلة قد نحر من بعضهم عن كل عشرة منهم بدنة، نحر عن بعضهم عن كل سبعة منهم بدنة او بقرة، فقول جابر: اشتركنا في الجزور سبعة، وفي البقرة سبعة، يريد بعض اهل الحديبية، وخبر المسور، ومروان: اشترك عشرة في بدنة اي سبعمائة منهم وهم نصف اهل الحديبية، لا كلهمحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، وَمَرْوَانَ ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ، فَأَحْرَمَ مِنْهَا" ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ ابْنِ إِسْحَاقَ: سَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ سَبْعِينَ بَدَنَةٍ، كَانَ النَّاسُ سَبْعَمِائَةِ رَجُلٍ، يُرِيدُ سَبْعَمِائَةِ رَجُلٍ الَّذِينَ نَحَرَ عَنْهُمُ السَّبْعِينَ الْبَدَنَةَ، لا أَنَّ جَمِيعَ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ بِالْحُدَيْبِيَةِ كَانُوا سَبْعَمِائَةِ رَجُلٍ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ اسْمَ النَّاسِ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِ النَّاسِ، كَقَوْلِهِ تَعَالَى: الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ سورة آل عمران آية 173، فَالْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ كُلَّ النَّاسِ لَمْ يَقُولُوا، وَلا كُلَّ النَّاسِ قَدْ جَمَعُوا لَهُمْ، وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199، فَالْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ جَمِيعَ النَّاسِ لَمْ يُفِيضُوا مِنْ عَرَفَاتٍ، وَإِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: أَفَاضَ النَّاسُ بَعْضَ النَّاسِ لا جَمِيعَهُمْ، وَهَذَا بَابٌ طَوِيلٌ لَيْسَ هَذَا مَوْضِعَهُ، وَخَبَرُ ابْنِ عُيَيْنَةَ يُصَرِّحُ بِصِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ، أَلا تَسْمَعُهُ قَالَ فِي الْخَبَرِ: وَكَانُوا بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً، فَأَعْلَمَ أَنَّ جَمِيعَ أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ أَلْفٍ وَثَلاثِ مِائَةٍ إِذِ الْبِضْعُ مَا بَيْنَ الثَّلاثِ إِلَى الْعَشْرِ، وَهَذَا الْخَبَرُ فِي ذِكْرِ عَدَدِهِمْ شَبِيهٌ بِخَبَرِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُمْ كَانُوا بِالْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، فَهَذَا الْخَبَرُ يُصَرِّحُ أَيْضًا أَنَّهُمْ كَانُوا أَلْفًا وَأَرْبَعَمِائَةٍ، فَدَلَّتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ عَلَى أَنَّ قَوْلَهُ فِي خَبَرِ ابْنِ إِسْحَاقَ: وَكَانَ النَّاسُ سَبْعَمِائَةِ رَجُلٍ، وَكَانُوا بَعْضَ النَّاسِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ لا جَمِيعَهُمْ، فَعَلَى هَذَا التَّأْوِيلِ وَهَذِهِ الأَدِلَّةِ قَدْ نَحَرَ مِنْ بَعْضِهِمْ عَنْ كُلِّ عَشَرَةٍ مِنْهُمْ بَدَنَةً، نَحَرَ عَنْ بَعْضِهِمْ عَنْ كُلِّ سَبْعَةٍ مِنْهُمْ بَدَنَةً أَوْ بَقَرَةً، فَقَوْلُ جَابِرٍ: اشْتَرَكْنَا فِي الْجَزُورِ سَبْعَةٌ، وَفِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةٌ، يُرِيدُ بَعْضَ أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ، وَخَبَرُ الْمِسْوَرِ، وَمَرْوَانَ: اشْتَرَكَ عَشَرَةٌ فِي بَدَنَةٍ أَيْ سَبْعُمِائَةٍ مِنْهُمْ وَهُمْ نِصْفُ أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ، لا كُلُّهُمُ
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور جناب مروان رحمه الله سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ والے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام کے ساتھ نکلے جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو آپ نے اپنی قربانی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا۔ اور وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ پھر بقیہ حدیث ذکر کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب محمد بن اسحاق کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستّر اونٹ قربانی کے لئے اپنے ساتھ لئے تھے اور صحابہ کرام کی تعداد سات سو تھی اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ آپ نے سات سو افراد کی طرف سے ستّر اونٹ نحر کیے تھے۔ یہ مراد نہیں کہ صلح حدیبیہ میں شریک ہونے والے تمام صحابہ کرام کی تعداد سات سو تھی، یہ مسئلہ اسی جنس سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ لفظ الناس بول کر بعض افراد مراد لئے جاتے ہیں، اس سے تمام لوگ مراد نہیں ہوتے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ» [ سورة آل عمران: 173 ]”ان سے لوگوں نے کہا تھا کہ تمھارے خلاف ایک بڑی فوج جمع ہوئی ہے۔“ اب یہ بات یقینی ہے کہ سب کافروں نے یہ بات نہیں کہی تھی اور نہ سب لوگ ان کے خلاف جمع ہوئے تھے۔ (حالانکہ دونوں جگہ لفظ الناس استعمال ہوا ہے) اسی طرح یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ]”اور تم بھی وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔“ یہ بات بھی حتمی اور یقینی ہے کہ سب لوگ عرفات سے واپس نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے الله تعالیٰ نے افاض الناس سے مراد کچھ لوگ لئے ہیں سارے لوگ مراد نہیں ہیں یہ مسئلہ بڑا طویل ہے جسے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ جناب سفیان بن عیینہ کی روایت اس تاویل کے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ اس میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ صحابہ کرام کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ اس طرح انہوں نے بیان کردیا کہ اہل حدیبیہ کی تعداد تیرہ سو سے زیادہ تھی کیونکہ بضع کا لفظ تین سے دس تک بولا جاتا ہے (اور ابن عیینہ نے ایک ہزار اور بضع تعداد بتائی ہے) جس میں ہے کہ حدیبیہ میں صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ اور یہ روایت اس روایت کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ حدیبیہ میں صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ اور یہ روایت بھی صراحت کرتی ہے کہ صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن اسحاق کی روایت میں مذکورہ یہ الفاظ کہ صحابہ کرام کی تعداد سات سو تھی ‘ اس سے مراد کچھ صحابہ کرام ہیں جو حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، یہ ان کی کل تعداد نہیں ہے اس تاویل اور ان دلائل کی بنیاد پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے کچھ صحابہ کرام کی طرف سے ایک اونٹ دس افراد کی طرف سے قربان کیا اور کچھ صحابہ کرام سات افراد ایک اونٹ یا ایک گائے کی قربانی میں شریک ہوئے۔ اس لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ ہم نے اونٹ کی قربانی میں سات افراد نے شرکت کی اور گائے کی قربانی میں بھی سات افراد شریک ہوئے۔‘ اس سے ان کی مراد کچھ اہل حدیبیہ ہیں سب لوگ مراد نہیں۔ اور سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور جناب مروان رحمه الله کی روایت میں ہے اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہوئے یعنی چودہ سو صحابہ میں سے سات سو صحابہ نے ستّر اونٹوں میں دس دس کے حساب سے شرکت کی، یہ تعداد حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہ کی نصف تعداد ہے کل تعداد نہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں شریک تھے تو عیدالضحیٰ آگئی، پس ہم نے گائے کی قربانی میں سات افراد اور اونٹ کی قربانی میں دس افراد نے شرکت کی۔