ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
جناب زیاد بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ایک شخص کے پاس آئے جس نے منیٰ میں اپنی قربانی کے اونٹ کو نحر کرنے کے لئے بٹھایا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اُٹھا کر کھڑا کرو اور سنّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ایک ٹانگ باندھ کرنحر کرو۔ یہ روایت جناب زیاد بن ایوب کی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے سات اونٹ کھڑے کرکے نحر کیے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اسی قسم سے ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کر چکا ہوں کہ کوئی عدد اپنے سے زائد کی نفی نہیں کرتا لہٰذا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے سات اونٹ نحر کیے، اس سے یہ دلیل نہیں ملتی کہ آپ نے سات سے زیادہ اونٹ نحرنہیں کیے کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے تریسٹھ اونٹ نحر کیے تھے۔
سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله سے دو خوبصورت چتکبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کرتے تھے اور «بِسْمِ اللهِ، اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے تھے میں نے آپ کو اپنے دست مبارک سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے اپنا قدم اس کے پہلو پر رکھا ہوا تھا۔
جناب قتاده رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا۔ امام شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا، کیا آپ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے؟ اُنھوں نے فرمایا کہ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذبح کرتے تھے۔ مذکورہ بالا کی مثل روایت بیان کی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ والے سال ابوجہل سے حاصل ہونے والا اونٹ قربانی کے لئے بھیجا تھا، اُس کی ناک میں چاندی کا چھلا ڈالا ہوا تھا۔ یہ اونٹ جنگ بدر والے دن مسلمانوں کو مال غنیمت میں ملا تھا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”ابوجہل کا اونٹ“ یہ اسی جنس سے ہے جسے میں نے کتاب البیوع میں باب الافراس کے تحت بیان کیا ہے کہ کبھی مال کی نسبت اس کے سابقہ مالک کی طرف بھی کردی جاتی ہے جبکہ اس کی ملکیت اب ختم ہوچکی ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے «اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ» [ سورة يوسف: 92 ]”ان کی نقدی (پونجی) ان کے سامان میں رکھ دو۔“ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عليه السلام کے بھائیوں کے مال کی نسبت انہی کی طرف کی ہے حالانکہ وہ اس مال کے عوض گندم وغیره خرید چکے تھے (اور یہ مال ان کی ملکیت سے نکل چکا تھا) میں نے اس آیت سے استدلال اس لئے کیا ہے کیونکہ بعض ہمارے مخالفین کا خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ”جب کوئی شخص مفلس ہو جائے اور قرض خواہ اس کے پاس بعينه اپنا مال پالے تو وہ دیگر قرض خواہ افراد سے اس مال کا زیادہ حقدار ہے۔“ اس سے وہ یہ سمجھا ہے کہ اس مال سے مراد وہ مال ہے جو بطور امانت دیا ہوا تھا یا اس شخص نے غصب کیا ہوا تھا اور اس لئے ابھی پہلے مالک کی ملکیت ختم نہیں ہوئی تھی (لہٰذا وہ دوسروں سے زیادہ حقدار ہے۔ جبکہ امام ابن خزیمہ رحمه الله کے نزدیک اس مال کی نسبت اس شخص کی طرف اس کے سابقہ مالک ہو نے کی حیثیت سے ہے) میں نے کتاب البیوع میں یہ مسئلہ خوب وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
2048. اہل حرب مشرکین اور بت پرستوں سے حاصل ہونے والے مال غنیمت میں سے جانور قربانی کے لئے مکّہ مکرّمہ بھیجنا مستحب ہے تاکہ اس سے مشرکین کو غصّہ اور رنج دلایا جائے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ والے سال ابوجہل سے حاصل ہونے والا اونٹ بھی قربانی کے اونٹوں کے ساتھ روانہ کیا، اُس کی ناک میں چاندی کا چھلّہ بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اونٹ مشرکین کو جلانے اور غم دلانے کے لئے بھیجا تھا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید قربان کے دن دو مینڈھے ذبح کیے، پھر جب انہیں قبلہ رخ لٹایا تو یہ آیت پڑھی «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [ سورة الأنعام: 79]”بیشک میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف مرکوز کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے میں اسی (اللہ) کا پرستار ہوں اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“ اور یہ آیت پڑھی «قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ» ”بیشک میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت،(سب کچھ) الله رب العالمین ہی کے لئے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی (بات یعنی توحید) کا حُکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔“ «اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ، بِسْمِ اللهِ، اللهُ أَكْبَرُ» [ سورة الأنعام: 163،162 ]”اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ تیرے ہی دیئے ہوئے (رزق) سے قربانی کررہا ہوں اور تیری ہی خوشنودی کے حصول کے لئے کررہا ہوں اسے محمد اور آپ کی اُمّت کی طرف سے قبول فرما۔“
وإن كان من يشترك في البقرة الواحدة او البدنة الواحدة من قبائل شتى ليسوا من اهل بيت واحد، مع الدليل ان سبع بدنة وسبع بقرة تقوم مقام شاة في الهدي. وَإِنْ كَانَ مَنْ يَشْتَرِكُ فِي الْبَقَرَةِ الْوَاحِدَةِ أَوِ الْبَدَنَةِ الْوَاحِدَةِ مِنْ قَبَائِلَ شَتَّى لَيْسُوا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ وَاحِدٍ، مَعَ الدَّلِيلِ أَنَّ سُبْعَ بَدَنَةِ وَسُبْعَ بَقَرَةٍ تَقُومُ مَقَامَ شَاةٍ فِي الْهَدْيِ.
اگرچہ یہ شریک ہونے والے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہوں اور ایک ہی خاندان کے افراد نہ ہوں۔ اس دلیل کے بیان کےساتھ کہ ایک اونٹ یا گائے کا ساتواں حصّہ قربانی میں ایک بکری کے برابر ہے
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حج اور عمرے میں ایک اونٹ میں سات افراد نے شرکت کی جناب عبدالرحمٰن کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اس دن ہم نے ستّر اونٹ نحر کیے۔ پھر دونوں راویوں کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا، کیا اونٹ کی طرح گائے میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ گائے بھی بدنته (قربانی کے جانوروں میں) شامل ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو صلح حدیبیہ کے متعلق بیان کیا ہے جناب عبدالرحمٰن کی روایت میں ہے کہ اس دن ہم نے سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ نحر کیا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم سات افراد نے ایک اونٹ میں شرکت کی اور اس دن ہم نے ستّر اونٹ نحر کیے۔ باقی روایت ایک جیسی ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں سات افراد کی طرف سے ایک اونٹ نحر کیا اور گائے بھی سات افراد کی طرف سے قربان کی۔