صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2047. ‏(‏306‏)‏ بَابُ إِبَاحَةِ الْهَدْيِ مِنَ الذُّكْرَانِ وَالْإِنَاثِ جَمِيعًا
2047. حج کی قربانی میں نراور مادہ جانور دونوں قربان کرنا جائز ہے
حدیث نمبر: 2897
Save to word اعراب
حدثنا الفضل بن يعقوب الجزري ، حدثنا عبد الاعلى ، عن محمد ، عن عبد الله بن ابي نجيح ، عن مجاهد ، عن ابن عباس ، قال: " اهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم بجمل ابي جهل في هديه عام الحديبية وفي راسه برة من فضة، كان ابو جهل اسلمه يوم بدر" ، قال ابو بكر: هذه اللفظة" جمل ابي جهل من الجنس الذي كنت اعلمت في كتاب البيوع في ابواب الافراس ان المال قد يضاف إلى المالك الذي قد ملكه في بعض الاوقات بعد زوال ملكه عنه، كقوله تعالى: اجعلوا بضاعتهم في رحالهم سورة يوسف آية 62، فاضاف البضاعة إليهم بعد اشترائهم بها طعاما، وإنما كنت احتججت بها، لان بعض مخالفينا زعم ان قول النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا افلس الرجل فوجد الرجل متاعه بعينه، فهو احق به من سائر العرفاء"، فزعم ان هذا المال هو مال الوديعة، والغصب وما لم يزل ملك صاحبه عنه، وقد بينت هذه المسالة بيانا شافيا في ذلك الموضعحَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَزَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَمَلِ أَبِي جَهْلٍ فِي هَدْيِهِ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ وَفِي رَأْسِهِ بُرَّةٌ مِنْ فِضَّةٍ، كَانَ أَبُو جَهْلٍ أَسْلَمَهُ يَوْمَ بَدْرٍ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ" جَمَلُ أَبِي جَهْلٍ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي كُنْتُ أَعْلَمْتُ فِي كِتَابِ الْبُيُوعِ فِي أَبْوَابِ الأَفْرَاسِ أَنَّ الْمَالَ قَدْ يُضَافُ إِلَى الْمَالِكِ الَّذِي قَدْ مَلَكَهُ فِي بَعْضِ الأَوْقَاتِ بَعْدَ زَوَالِ مِلْكِهِ عَنْهُ، كَقَوْلِهِ تَعَالَى: اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ سورة يوسف آية 62، فَأَضَافَ الْبِضَاعَةَ إِلَيْهِمْ بَعْدَ اشْتِرَائِهِمْ بِهَا طَعَامًا، وَإِنَّمَا كُنْتُ احْتَجَجْتُ بِهَا، لأَنَّ بَعْضَ مُخَالِفِينَا زَعَمَ أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَفْلَسَ الرَّجُلُ فَوَجَدَ الرَّجُلُ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ سَائِرِ الْعُرَفَاءِ"، فَزَعَمَ أَنَّ هَذَا الْمَالَ هُوَ مَالُ الْوَدِيعَةِ، وَالْغَصْبِ وَمَا لَمْ يَزَلْ مِلْكُ صَاحِبِهِ عَنْهُ، وَقَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ بَيَانًا شَافِيًا فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ والے سال ابوجہل سے حاصل ہونے والا اونٹ قربانی کے لئے بھیجا تھا، اُس کی ناک میں چاندی کا چھلا ڈالا ہوا تھا۔ یہ اونٹ جنگ بدر والے دن مسلمانوں کو مال غنیمت میں ملا تھا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ابوجہل کا اونٹ یہ اسی جنس سے ہے جسے میں نے کتاب البیوع میں باب الافراس کے تحت بیان کیا ہے کہ کبھی مال کی نسبت اس کے سابقہ مالک کی طرف بھی کردی جاتی ہے جبکہ اس کی ملکیت اب ختم ہوچکی ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے «‏‏‏‏اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ» ‏‏‏‏ [ سورة يوسف: 92 ] ان کی نقدی (پونجی) ان کے سامان میں رکھ دو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عليه السلام کے بھائیوں کے مال کی نسبت انہی کی طرف کی ہے حالانکہ وہ اس مال کے عوض گندم وغیره خرید چکے تھے (اور یہ مال ان کی ملکیت سے نکل چکا تھا) میں نے اس آیت سے استدلال اس لئے کیا ہے کیونکہ بعض ہمارے مخالفین کا خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: جب کوئی شخص مفلس ہو جائے اور قرض خواہ اس کے پاس بعينه اپنا مال پالے تو وہ دیگر قرض خواہ افراد سے اس مال کا زیادہ حقدار ہے۔ اس سے وہ یہ سمجھا ہے کہ اس مال سے مراد وہ مال ہے جو بطور امانت دیا ہوا تھا یا اس شخص نے غصب کیا ہوا تھا اور اس لئے ابھی پہلے مالک کی ملکیت ختم نہیں ہوئی تھی (لہٰذا وہ دوسروں سے زیادہ حقدار ہے۔ جبکہ امام ابن خزیمہ رحمه الله کے نزدیک اس مال کی نسبت اس شخص کی طرف اس کے سابقہ مالک ہو نے کی حیثیت سے ہے) میں نے کتاب البیوع میں یہ مسئلہ خوب وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.