ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2004. اس بات کا بیان کہ عرفات سے واپسی پر اونٹوں، گھوڑوں اور دیگر سواریوں کو دوڑانا اور تیز بھگانا کوئی نیکی نہیں بلکہ سکون اور اطمینان سے چلنا نیکی ہے۔
والدليل على ان البر السكينة في السير بمثل اللفظة التي ذكرت انها لفظ عام مراده خاص. وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْبِرَّ السَّكِينَةُ فِي السَّيْرِ بِمِثْلِ اللَّفْظَةِ الَّتِي ذَكَرْتُ أَنَّهَا لَفْظٌ عَامٌّ مُرَادُهُ خَاصٌّ.
لیکن اس حدیث کے الفاظ بھی گزشتہ حدیث کے الفاظ کی طرح عام ہیں اور ان کی مراد خاص ہے
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے واپسی پر ہمیں اپنے پیچھے اوٹنی پر سوار کرلیا۔ آپ بڑے آرام و سکون سے چلے اور فرمایا: ”اے لوگو، سکون سے چلو، یقیناً گھوڑوں اور اونٹوں کو تیز بھگانا نیکی نہیں ہے۔“ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے آپ کی اونٹنی کو تیز دوڑنے کے لئے اپنا اگلا قدم اُٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا حتّیٰ کہ آپ مزدلفہ پہنچ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو بٹھالیا اور لوگوں کو آرام و سکون کے ساتھ چلنے کا حُکم دیا۔ پھر آپ خود بھی سکون کے ساتھ چلے۔ آپ نے فرمایا: ”گھوڑے اور اونٹ تیز دوڑانا نیکی نہیں ہے۔“ پھر میں نے آپ کی اونٹنی کو اپنا اگلا قدم اُٹھاکر دوڑتے ہوئے نہیں دیکھا حتّیٰ کہ آپ منیٰ پہنچ گئے۔
والبيان ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما كان يسير سير السكينة في الوقت الذي لم يجد فجوة إذ قد نص عند وجود الفجوة في السير عند الدفعة من عرفة، وفي هذا الخبر ما بان ان اسامة بن زيد اراد بقوله: فما رايت ناقته رافعة يدها حتى اتينا جمعا- اي في الزحام دون الوقت الذي وجد فيه فجوة- إذ اسامة هو المخبر انه نص لما وجد الفجوة. وَالْبَيَانُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا كَانَ يَسِيرُ سَيْرَ السَّكِينَةِ فِي الْوَقْتِ الَّذِي لَمْ يَجِدْ فَجْوَةً إِذْ قَدْ نَصَّ عِنْدَ وُجُودِ الْفَجْوَةِ فِي السَّيْرِ عِنْدَ الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ، وَفِي هَذَا الْخَبَرِ مَا بَانَ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: فَمَا رَأَيْتُ نَاقَتَهُ رَافِعَةً يَدَهَا حَتَّى أَتَيْنَا جَمْعًا- أَيْ فِي الزِّحَامِ دُونَ الْوَقْتِ الَّذِي وَجَدَ فِيهِ فَجْوَةً- إِذْ أُسَامَةُ هُوَ الْمُخْبِرُ أَنَّهُ نَصَّ لَمَّا وَجَدَ الْفَجْوَةَ.
جناب ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو سنا جبکہ وہ میرے پاس تشریف فرما تھے۔ اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ عرفات سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔ حضرت عروہ نے پوچھا کہ عرفات سے واپس آتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسی چال چلے تھے؟ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ درمیانی چال چلے تھے لیکن جب جگہ کھلی ملتی تو اونٹنی کو تیز چلاتے۔ امام سفیان رحمه الله فرماتے ہیں کہ نص العنق سے تیز دوڑ کو کہتے ہیں۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ان کی روایت میں ہی الفاظ درج ہیں کہ نص عنق سے تیز چال کو کہتے ہیں۔ اور جناب وکیع کی روایت میں درج ہے کہ یعنی عنق سے تیز چال چلتے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حج یا عمرے کے سفر میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس آپ کو لیکر سیدھی ہوتی تو آپ تلبیہ پکارتے۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ اور فرمایا کہ آپ میدان عرفات میں ٹھہرے رہے حتّیٰ کہ جب سورج غروب ہوگیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کردیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کی الوہیت کا اقرار «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ» اور اس کی بڑائی اور بزرگی بیان کرتے رہے حتّیٰ کہ آپ مزدلفہ پہنچ گئے۔
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس ہوئے تو آپ نے انہیں اس شام اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ پھر جب گھاٹی کے پاس آئے تو آپ نے سواری سے اُتر کر پیشاب کیا اور یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا (بلکہ صریح الفاظ بولے کہ آپ نے پیشاب کیا)۔ پھر میں نے آپ کے ایک برتن سے پانی اُنڈیلا تو آپ نے ہلکا سا وضو کیا۔ ہم نے عرض کیا کہ نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز آگے جاکر (مزدلفہ میں) پڑھیں گے۔“ پھر جب ہم مزدلفہ پہنچے تو آپ نے مغرب کی نماز ادا کی پھر صحابہ کرام نے اپنی سواریوں سے کجاوے اتار لیے اور سواریاں کھول دیں اور آپ کی سواری کو کھولنے اور کجاوہ اُتارنے میں، میں نے آپ کی مدد کی پھر آپ نے عشاء کی نماز ادا کی۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق صرف ابن عیینہ نے اس سند میں سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ اور جناب کریب کے درمیان سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا ہے۔ جناب یحییٰ بن سعید انصاری نے اپنی سند میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا میں نے اس حدیث کے تمام طرق کتاب الکبیر میں بیان کردیے ہیں۔
مع البيان ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى بالمزدلفة صلاة المسافر لا صلاة المقيم. مَعَ الْبَيَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمُزْدَلِفَةِ صَلَاةَ الْمُسَافِرِ لَا صَلَاةَ الْمُقِيمِ.
اور اس بات کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مسافر والی نماز پڑھی تھی، مقیم والی نہیں
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے ادا کیں، ان کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعت ادا کیں۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مزدلفہ میں ساری عمر اسی طرح نماز (قصر اور جمع کرکے) ادا کرتے رہے۔
خلاف، قول من زعم ان الصلاتين إذا جمع بينهما في وقت الآخرة منهما جمع بينهما بإقامتين من غير اذان. خِلَافَ، قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الصَّلَاتَيْنِ إِذَا جُمِعَ بَيْنَهُمَا فِي وَقْتِ الْآخِرَةِ مِنْهُمَا جُمِعَ بَيْنَهُمَا بِإِقَامَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ أَذَانٍ.
اس شخص کے قول کے برخلاف جو کہتا ہے کہ جب دو نمازوں کو دوسری نماز کے وقت میں جمع کیا جائے تو دونوں کے لئے صرف اقامت کہی جائیگی اور اذان نہیں دی جائیگی