ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
والبيان ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما كان يسير سير السكينة في الوقت الذي لم يجد فجوة إذ قد نص عند وجود الفجوة في السير عند الدفعة من عرفة، وفي هذا الخبر ما بان ان اسامة بن زيد اراد بقوله: فما رايت ناقته رافعة يدها حتى اتينا جمعا- اي في الزحام دون الوقت الذي وجد فيه فجوة- إذ اسامة هو المخبر انه نص لما وجد الفجوة. وَالْبَيَانُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا كَانَ يَسِيرُ سَيْرَ السَّكِينَةِ فِي الْوَقْتِ الَّذِي لَمْ يَجِدْ فَجْوَةً إِذْ قَدْ نَصَّ عِنْدَ وُجُودِ الْفَجْوَةِ فِي السَّيْرِ عِنْدَ الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ، وَفِي هَذَا الْخَبَرِ مَا بَانَ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: فَمَا رَأَيْتُ نَاقَتَهُ رَافِعَةً يَدَهَا حَتَّى أَتَيْنَا جَمْعًا- أَيْ فِي الزِّحَامِ دُونَ الْوَقْتِ الَّذِي وَجَدَ فِيهِ فَجْوَةً- إِذْ أُسَامَةُ هُوَ الْمُخْبِرُ أَنَّهُ نَصَّ لَمَّا وَجَدَ الْفَجْوَةَ.
جناب ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو سنا جبکہ وہ میرے پاس تشریف فرما تھے۔ اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ عرفات سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔ حضرت عروہ نے پوچھا کہ عرفات سے واپس آتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسی چال چلے تھے؟ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ درمیانی چال چلے تھے لیکن جب جگہ کھلی ملتی تو اونٹنی کو تیز چلاتے۔ امام سفیان رحمه الله فرماتے ہیں کہ نص العنق سے تیز دوڑ کو کہتے ہیں۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ان کی روایت میں ہی الفاظ درج ہیں کہ نص عنق سے تیز چال کو کہتے ہیں۔ اور جناب وکیع کی روایت میں درج ہے کہ یعنی عنق سے تیز چال چلتے۔“