صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
1998. ‏(‏257‏)‏ بَابُ الِاسْتِعَاذَةِ فِي الْمَوْقِفِ مِنَ الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ فِي الْحَجِّ إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ‏.‏
1998. میدان عرفات میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا کہ وہ حج میں ریاکاری اور شہرت سے محفوظ فرمائے (اگر یہ حدیث ثابت ہو)
حدیث نمبر: 2836
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم ، حدثنا سعيد بن بشير القرشي ، حدثني عبد الله بن حكيم الكناني من اهل اليمن من مواليهم، عن بشر بن قدامة الضبابي ، قال: ابصرت عيناي حبي رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا بعرفات على ناقة له حمراء قصواء، وتحته قطيفة قولانية، وهو يقول: " اللهم اجعله حجا غير رياء، ولا هياء، ولا سمعة" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ الْقُرَشِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَكِيمٍ الْكِنَانِيُّ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مَوَالِيهِمْ، عَنْ بِشْرِ بْنِ قُدَامَةَ الضِّبَابِيِّ ، قَالَ: أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ حِبِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا بِعَرَفَاتٍ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ حَمْرَاءُ قَصْوَاءُ، وَتَحْتَهُ قَطِيفَةٌ قَوْلانِيَّةٌ، وَهُوَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا غَيْرَ رِيَاءٍ، وَلا هِيَاءٍ، وَلا سُمْعَةٍ"
سیدنا بشر بن قدامہ الضبابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری ان دو آنکھوں نے میرے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان عرفات میں اپنی اونٹنی قصواء پر سوار دیکھا آپ کے نیچے بالکل معمولی سی چادر تھی اور آپ دعا مانگ رہے تھے «‏‏‏‏اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا غَيْرَ رِيَاءٍ وَلا هِيَاءٍ وَلا سُمْعَةِ‏» ‏‏‏‏ اے اللہ، اس حج کوریاکاری نمود ونمائش اور شہرت سے محفوظ بنادے۔

تخریج الحدیث: صحيح
1999. ‏(‏258‏)‏ بَابُ وَقْتِ الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ خِلَافَ سُنَّةِ أَهْلِ الْكُفْرِ وَالْأَوْثَانِ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ‏.‏
1999. جاہلیت میں اہل کفر اور بت پرستوں کے عرفات سے لوٹنے کے وقت کے برخلاف مسلمانوں کی روانگی کے وقت کا بیان
حدیث نمبر: 2837
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو احمد الزبيري ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة ، عن زيد بن علي ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي ، قال: " وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة، ثم افاض حين غابت الشمس، واردف اسامة بن زيد" ، قال محمد بن إسحاق: اخبر جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر من هذا الباب ايضاحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: " وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ" ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: أخَبَرُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ مِنْ هَذَا الْبَابِ أَيْضًا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں ٹھہرے رہے پھر غروب آفتاب کے بعد آپ واپس (مزدلفہ) لوٹے آپ نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ جناب محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جناب جعفر بن محمد کی اپنے والد سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس باب کے متعلق ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 2838
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابو عامر ، حدثنا زمعة ، عن سلمة وهو ابن وهرام ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" كان اهل الجاهلية يقفون بعرفة حتى إذا كانت الشمس على رءوس الجبال كانها العمائم على رءوس الرجال دفعوا، فيقفون بالمزدلفة حتى إذا طلعت الشمس، فكانت على رءوس الجبال كانها العمائم على رءوس الرجال دفعوا، فاخر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدفعة من عرفة حتى غربت الشمس، ثم صلى الصبح بالمزدلفة حين طلع الفجر، ثم دفع حين اسفر كل شيء في الوقت الآخر قبل ان تطلع الشمس" ، قال ابو بكر: انا ابرا من عهدة زمعة بن صالححَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ وَهُوَ ابْنُ وَهْرَامَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ عَلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ كَأَنَّهَا الْعَمَائِمُ عَلَى رُءُوسِ الرِّجَالِ دَفَعُوا، فَيَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ حَتَّى إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَكَانَتْ عَلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ كَأَنَّهَا الْعَمَائِمُ عَلَى رُءُوسِ الرِّجَالِ دَفَعُوا، فَأَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّفْعَةَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ دَفَعَ حِينَ أَسْفَرَ كُلُّ شَيْءٍ فِي الْوَقْتِ الآخِرِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا أَبْرَأُ مِنْ عُهْدَةِ زَمْعَةَ بْنِ صَالِحٍ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ عرفات میں ٹھہرے رہتے حتّیٰ کہ جب سورج پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہو جاتا جیسے آدمیوں کے سروں پر پگڑیاں ہوتی ہیں تو وہ مزدلفہ لوٹ آتے۔ پھر مزدلفہ میں ٹھہرتے حتّیٰ ٰکہ جب سورج طلوع ہو جاتا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر مردوں کے سروں پر پگڑیوں کی طرح ہو جاتا تو (منیٰ) لوٹ آتے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے روانگی کو غروب آفتاب تک مؤخر کردیا، پھر صبح کی نماز مزدلفہ میں ادا کی جبکہ فجر طلوع ہوگئی پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے آخری گھڑی میں منیٰ روانہ ہوئے جبکہ ہر چیز روشن ہو چکی تھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں زمعہ بن صالح راوی کی ذمہ داری سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: حسن لغيره
2000. ‏(‏259‏)‏ بَابُ تَبَاهِي اللَّهِ أَهْلَ السَّمَاءِ بِأَهْلِ عَرَفَاتٍ‏.‏
2000. اللہ تعالیٰ عرفات کے حاجیوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار کرتا ہے
حدیث نمبر: 2839
Save to word اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک الله تعالی عرفات کے حاجیوں کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر و مباہات کا اظہار فرماتا ہے۔ اللہ تعالی اُن سے فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو دیکھو کیسے غبار آلود پراگنده حال میں میرے دربار میں حاضر ہیں۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2840
Save to word اعراب
قال قال ابو بكر: وروى مرزوق هو ابو بكر , عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم عرفة إن الله ينزل إلى السماء، فيباهي بهم الملائكة، فيقول: انظروا إلى عبادي اتوني شعثا غبرا ضاحين من كل فج عميق، اشهدكم اني قد غفرت لهم، فتقول له الملائكة: اي رب، فيهم فلان يزهو، وفلان وفلان، قال: يقول الله: قد غفرت لهم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فما من يوم اكثر عتيقا من النار من يوم عرفة" . حدثناه محمد بن يحيى ، حدثنا ابو نعيم ، ثنا مرزوق، قال ابو بكر: انا ابرا من عهدة مرزوققَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَرَوَى مَرْزُوقٌ هُوَ أَبُو بَكْرٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ إِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيُبَاهِي بِهِمُ الْمَلائِكَةَ، فَيَقُولُ: انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي أَتَوْنِي شُعْثًا غُبْرًا ضَاحِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، فَتَقُولُ لَهُ الْمَلائِكَةُ: أَيْ رَبِّ، فِيهِمْ فُلانٌ يَزْهُو، وَفُلانٌ وَفُلانٌ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ: قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرُ عَتِيقًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ" . حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ثنا مَرْزُوقُ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا أَبْرَأُ مِنْ عُهْدَةِ مَرْزُوقٍ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عرفات کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاتا ہے اور عرفات کے حاجیوں کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں کی طرف دیکھو، وہ میری بارگاہ میں کس قدر غبار آلودہ پراگنده حالت میں حاضر ہیں، ہر دور دراز علاقے سے حاضر ہوئے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں معاف کردیا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار، ان میں فلاں متکبّر بھی ہے اور ان میں فلاں فلاں گناہ گار بھی ہیں، الله تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے ان سب کو بخش دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہیں: عرفہ والے دن جس کثرت سے لوگوں کو جہنّم سے آزادی ملتی ہے وہ کسی اور دن میں نہیں ملتی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں مرزوق (راوی) کی ذمہ داری سے بری ہوں۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
2001. ‏(‏260‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدُّعَاءِ عَلَى الْمَوْقِفِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ،
2001. عرفات کی شام کو میدان عرفات میں خصوصی دعا کا بیان، بشرطیکہ یہ حدیث صحیح ہو
حدیث نمبر: Q2841
Save to word اعراب
ولا اخال إلا انه ليس في الخبر حكم، وإنما هو دعاء، فخرجنا هذا الخبر وإن لم يكن ثابتا من جهة النقل إذ هذا الدعاء مباح ان يدعو به على الموقف وغيره‏.‏وَلَا أَخَالُ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْخَبَرِ حُكْمٌ، وَإِنَّمَا هُوَ دُعَاءٌ، فَخَرَّجْنَا هَذَا الْخَبَرَ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ ثَابِتًا مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ إِذْ هَذَا الدُّعَاءُ مُبَاحٌ أَنْ يَدْعُوَ بِهِ عَلَى الْمَوْقِفِ وَغَيْرِهِ‏.‏

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2841
Save to word اعراب
روى قيس بن الربيع ، عن الاغر ، عن خليفة بن حصين ، عن علي ، قال: كان اكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشية عرفة:" اللهم لك الحمد كالذي نقول، وخيرا مما نقول، اللهم لك صلاتي ونسكي، ومحياي ومماتي، إليك مآبي، ولك ربي ترائي، اللهم إني اعوذ بك من عذاب القبر، ووسوسة الصدر، وشتات الامر، اللهم إني اسالك من خير ما تجيء به الريح، واعوذ بك من شر ما تجيء به الريح" ، ثناه يوسف بن موسى ، حدثنا عبد الله بن موسى ، عن قيس بن الربيع رَوَى قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنِ الأَغَرِّ ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حَصِينٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشِيَّةِ عَرَفَةَ:" اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي نَقُولُ، وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ، اللَّهُمَّ لَكَ صَلاتِي وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي، إِلَيْكَ مَآبِي، وَلَكَ رَبِّي تَرَائِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ، وَشَتَاتِ الأَمْرِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ" ، ثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کی شام کو یہ دعا بکثرت پڑھی تھی «‏‏‏‏اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي تَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ اللَّهُمَّ لَكَ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِي وَإِلَيْكَ مَآبِي وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الأَمْرِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ» ‏‏‏‏ ‏ اے اللہ، تمام تعریفیں تیری ہی ہیں جیسے تو نے اپنے لئے بیان کی ہیں، اور جو تعریفیں ہم بیان کرتے ہیں، اس سے بہتر واعلیٰ تیری تعریفیں ہیں اے اللہ، میری نماز تیرے ہی لئے ہے۔ میری قربانی میرا جینا، میرا مرنا تیرے لئے ہے۔ تیری ہی طرف میرا لوٹنا ہے۔ اے میرے رب، میری میراث تیرے لئے ہے۔ اے اللہ، میں قبر کے عذاب، سینے کے وسوسوں اور معاملات کے بگاڑ و فساد سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ، میں تجھ سے اس خیر و بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو ہوا لیکر آتی ہے اور اس شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو ہوا لیکر آتی ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
2002. ‏(‏261‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْعِلَّةِ الَّتِي مِنْ أَجْلِهَا سُمِّيَتْ عَرَفَةُ عَرَفَةَ‏.‏
2002. عرفات کی وجہ تسمیہ کا بیان
حدیث نمبر: 2842
Save to word اعراب
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، حدثنا ابن ابي ليلى ، عن ابن ابي مليكة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: " اتى جبريل إبراهيم يريه المناسك، فصلى به الظهر والعصر، والمغرب والعشاء، والصبح بمنى، ثم ذهب معه إلى عرفة، فصلى به الظهر والعصر بعرفة، ووقفه في الموقف حتى غابت الشمس، ثم دفع به فصلى به المغرب والعشاء والصبح بمزدلفة، ثم ابات ليلته، ثم دفع به حتى رمى الجمرة، فقال له: اعرف الآن، فاراه المناسك كلها، فعل ذلك بالنبي صلى الله عليه وسلم" حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: " أَتَى جِبْرِيلُ إِبْرَاهِيمَ يُرِيهِ الْمَنَاسِكَ، فَصَلَّى بِهِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، وَالصُّبْحَ بِمِنًى، ثُمَّ ذَهَبَ مَعَهُ إِلَى عَرَفَةَ، فَصَلَّى بِهِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِعَرَفَةَ، وَوَقَّفَهُ فِي الْمَوْقِفِ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ دَفَعَ بِهِ فَصَلَّى بِهِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِمُزْدَلِفَةِ، ثُمَّ أَبَاتَ لَيْلَتَهُ، ثُمَّ دَفَعَ بِهِ حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ، فَقَالَ لَهُ: أَعْرِفِ الآنَ، فَأَرَاهُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا، فَعَلَ ذَلِكَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل عليه السلام، حضرت ابراهیم عليه السلام کو منا سک حج سکھانے اور دکھانے کے لئے آئے تو انہیں منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھائیں، پھر وہ اُن کے ساتھ عرفات گئے اور عرفات میں اُنہیں ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھائیں اور اُنھیں سورج غروب ہونے تک موقف میں ٹھہرایا، پھر انہیں لیکر روانہ ہوگئے، پھر انہیں مغرب عشاء اور صبح کی نمازیں مزدلفہ میں پڑھائیں، رات مزدلفہ میں ہی بسرکرائی، پھر (صبح کومنیٰ جاکر) جمره پر کنکریاں ماریں۔ پھر تمام مناسک دکھانے کے بعد فرمایا کہ إعرف الأن (اب اچھی طرح پہچان لو)۔ اسی طرح حضرت جبرائیل عليه السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام مناسک سکھائے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
2003. ‏(‏262‏)‏ بَابُ صِفَةِ السَّيْرِ فِي الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ،
2003. عرفات سے منیٰ جاتے وقت چلنے کی کیفیت کا بیان۔
حدیث نمبر: Q2843
Save to word اعراب
والامر بالسكينة في السير بلفظ عام مراده خاص‏.‏ وَالْأَمْرِ بِالسَّكِينَةِ فِي السَّيْرِ بِلَفْظٍ عَامٍّ مُرَادُهُ خَاصٌّ‏.‏
اس وقت آرام اور سکون کے ساتھ چلنے کا حُکم ہے لیکن اس حدیث کے الفاظ عام ہیں اور ان سے مراد خاص ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2843
Save to word اعراب
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح کو جب لوگ روانہ ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو، آرام و سکون سے چلو جبکہ آپ نے اپنی اونٹنی کو روکا ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم

Previous    21    22    23    24    25    26    27    28    29    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.