ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا بشر بن قدامہ الضبابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری ان دو آنکھوں نے میرے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان عرفات میں اپنی اونٹنی قصواء پر سوار دیکھا آپ کے نیچے بالکل معمولی سی چادر تھی اور آپ دعا مانگ رہے تھے «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا غَيْرَ رِيَاءٍ وَلا هِيَاءٍ وَلا سُمْعَةِ» ”اے اللہ، اس حج کوریاکاری نمود ونمائش اور شہرت سے محفوظ بنادے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں ٹھہرے رہے پھر غروب آفتاب کے بعد آپ واپس (مزدلفہ) لوٹے آپ نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ جناب محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جناب جعفر بن محمد کی اپنے والد سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس باب کے متعلق ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ عرفات میں ٹھہرے رہتے حتّیٰ کہ جب سورج پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہو جاتا جیسے آدمیوں کے سروں پر پگڑیاں ہوتی ہیں تو وہ مزدلفہ لوٹ آتے۔ پھر مزدلفہ میں ٹھہرتے حتّیٰ ٰکہ جب سورج طلوع ہو جاتا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر مردوں کے سروں پر پگڑیوں کی طرح ہو جاتا تو (منیٰ) لوٹ آتے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے روانگی کو غروب آفتاب تک مؤخر کردیا، پھر صبح کی نماز مزدلفہ میں ادا کی جبکہ فجر طلوع ہوگئی پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے آخری گھڑی میں منیٰ روانہ ہوئے جبکہ ہر چیز روشن ہو چکی تھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں زمعہ بن صالح راوی کی ذمہ داری سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک الله تعالی عرفات کے حاجیوں کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر و مباہات کا اظہار فرماتا ہے۔ اللہ تعالی اُن سے فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو دیکھو کیسے غبار آلود پراگنده حال میں میرے دربار میں حاضر ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عرفات کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاتا ہے اور عرفات کے حاجیوں کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میرے بندوں کی طرف دیکھو، وہ میری بارگاہ میں کس قدر غبار آلودہ پراگنده حالت میں حاضر ہیں، ہر دور دراز علاقے سے حاضر ہوئے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں معاف کردیا ہے۔“ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار، ان میں فلاں متکبّر بھی ہے اور ان میں فلاں فلاں گناہ گار بھی ہیں، الله تعالیٰ فرمائے گا کہ ”میں نے ان سب کو بخش دیا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہیں: ”عرفہ والے دن جس کثرت سے لوگوں کو جہنّم سے آزادی ملتی ہے وہ کسی اور دن میں نہیں ملتی۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں مرزوق (راوی) کی ذمہ داری سے بری ہوں۔
ولا اخال إلا انه ليس في الخبر حكم، وإنما هو دعاء، فخرجنا هذا الخبر وإن لم يكن ثابتا من جهة النقل إذ هذا الدعاء مباح ان يدعو به على الموقف وغيره.وَلَا أَخَالُ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْخَبَرِ حُكْمٌ، وَإِنَّمَا هُوَ دُعَاءٌ، فَخَرَّجْنَا هَذَا الْخَبَرَ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ ثَابِتًا مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ إِذْ هَذَا الدُّعَاءُ مُبَاحٌ أَنْ يَدْعُوَ بِهِ عَلَى الْمَوْقِفِ وَغَيْرِهِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کی شام کو یہ دعا بکثرت پڑھی تھی «اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي تَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ اللَّهُمَّ لَكَ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِي وَإِلَيْكَ مَآبِي وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الأَمْرِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ» ”اے اللہ، تمام تعریفیں تیری ہی ہیں جیسے تو نے اپنے لئے بیان کی ہیں، اور جو تعریفیں ہم بیان کرتے ہیں، اس سے بہتر واعلیٰ تیری تعریفیں ہیں اے اللہ، میری نماز تیرے ہی لئے ہے۔ میری قربانی میرا جینا، میرا مرنا تیرے لئے ہے۔ تیری ہی طرف میرا لوٹنا ہے۔ اے میرے رب، میری میراث تیرے لئے ہے۔ اے اللہ، میں قبر کے عذاب، سینے کے وسوسوں اور معاملات کے بگاڑ و فساد سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ، میں تجھ سے اس خیر و بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو ہوا لیکر آتی ہے اور اس شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو ہوا لیکر آتی ہے۔“
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل عليه السلام، حضرت ابراهیم عليه السلام کو منا سک حج سکھانے اور دکھانے کے لئے آئے تو انہیں منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھائیں، پھر وہ اُن کے ساتھ عرفات گئے اور عرفات میں اُنہیں ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھائیں اور اُنھیں سورج غروب ہونے تک موقف میں ٹھہرایا، پھر انہیں لیکر روانہ ہوگئے، پھر انہیں مغرب عشاء اور صبح کی نمازیں مزدلفہ میں پڑھائیں، رات مزدلفہ میں ہی بسرکرائی، پھر (صبح کومنیٰ جاکر) جمره پر کنکریاں ماریں۔ پھر تمام مناسک دکھانے کے بعد فرمایا کہ إعرف الأن (اب اچھی طرح پہچان لو)۔ اسی طرح حضرت جبرائیل عليه السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام مناسک سکھائے۔
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح کو جب لوگ روانہ ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو، آرام و سکون سے چلو “ جبکہ آپ نے اپنی اونٹنی کو روکا ہوا تھا۔