صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2002. (261) بَابُ ذِكْرِ الْعِلَّةِ الَّتِي مِنْ أَجْلِهَا سُمِّيَتْ عَرَفَةُ عَرَفَةَ.
عرفات کی وجہ تسمیہ کا بیان
حدیث نمبر: 2842
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: " أَتَى جِبْرِيلُ إِبْرَاهِيمَ يُرِيهِ الْمَنَاسِكَ، فَصَلَّى بِهِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، وَالصُّبْحَ بِمِنًى، ثُمَّ ذَهَبَ مَعَهُ إِلَى عَرَفَةَ، فَصَلَّى بِهِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِعَرَفَةَ، وَوَقَّفَهُ فِي الْمَوْقِفِ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ دَفَعَ بِهِ فَصَلَّى بِهِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِمُزْدَلِفَةِ، ثُمَّ أَبَاتَ لَيْلَتَهُ، ثُمَّ دَفَعَ بِهِ حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ، فَقَالَ لَهُ: أَعْرِفِ الآنَ، فَأَرَاهُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا، فَعَلَ ذَلِكَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل عليه السلام، حضرت ابراهیم عليه السلام کو منا سک حج سکھانے اور دکھانے کے لئے آئے تو انہیں منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھائیں، پھر وہ اُن کے ساتھ عرفات گئے اور عرفات میں اُنہیں ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھائیں اور اُنھیں سورج غروب ہونے تک موقف میں ٹھہرایا، پھر انہیں لیکر روانہ ہوگئے، پھر انہیں مغرب عشاء اور صبح کی نمازیں مزدلفہ میں پڑھائیں، رات مزدلفہ میں ہی بسرکرائی، پھر (صبح کومنیٰ جاکر) جمره پر کنکریاں ماریں۔ پھر تمام مناسک دکھانے کے بعد فرمایا کہ إعرف الأن (اب اچھی طرح پہچان لو)۔ اسی طرح حضرت جبرائیل عليه السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام مناسک سکھائے۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔