ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
1950. جو شخص کم علمی اور جہالت کی بنا پر صفا مروہ کی سعی بیت اللہ کے طواف سے پہلے کرلے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ جبکہ اسے معلوم نہ ہو کہ بیت اللہ شریف کا طواف سعی سے پہلے ہے
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حج کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلا۔ لوگ آپ کے پاس حاضر ہوتے تو کوئی کہتا کہ اے اللہ کے رسول، میں نے طواف کرنے سے پہلے سعی کرلی ہے۔ (کوئی کہتا) میں نے یہ کام بعد میں کیا ہے یا یہ کام پہلے کرلیا ہے۔ آپ ان سب سے کہتے: ”کوئی حرج نہیں، کوئی گناہ نہیں، سوائے اس شخص کے جس نے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کی اور وہ شخص ظالم ہوتو یہ وہ شخص ہے جو گناہ گار ہے اور ہلاک و برباد ہوا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ادا کیا تو بیت اللہ شریف کا طواف کیا، پھر صفا اور مروہ کی سعی کے لئے چلے گئے تو ہم آپ کو مکّہ والوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے آڑ کیے ہوئے تھے کہ کہیں کوئی کافر آپ کو تیر نہ مار دے یا کوئی اور تکلیف نہ پہنچا دے۔ اس دوران میں، میں نے آپ کو کافر جماعتوں پر بد دعا کرنے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَاب، سَرِيعَ الْحِسَاب، اهْزِم الأَحْزَاب، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَ زَلْزِلْهُم» ”اے اللہ کتاب کو نازل فرمانے والے، جلد حساب لینے والے، کافر جماعتوں کو شکست فاش دینے والے۔ اے اللہ، انہیں شکست و ناکامی سے دوچار کردے اور ان کے قدم ڈگمگا دے“
حضرت زینب بنت ام سلمہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہ مکّہ مکرّمہ آئیں تو وہ بیمار تھیں، اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیماری کے متعلق بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سواری پر بیٹھ کر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کرلو۔“ یہ جناب الدورقی کی روایت ہے۔
وهذا من الجنس الذي اعلمت قبل ان استنان السنة قد تكون في الابتداء لعلة فتزول العلة وتبقى السنة إلى آخر الابد، إذ النبي صلى الله عليه وسلم إنما سعى بالبيت وبين الصفا والمروة ليرى المشركون قوته، فبقيت هذه السنة إلى آخر الابدوَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ قَبْلُ أَنَّ اسْتِنَانَ السُّنَّةِ قَدْ تَكُونُ فِي الِابْتِدَاءِ لِعِلَّةٍ فَتَزُولُ الْعِلَّةُ وَتَبْقَى السُّنَّةُ إِلَى آخِرِ الْأَبَدِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا سَعَى بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيَرَى الْمُشْرِكُونَ قُوَّتَهُ، فَبَقِيَتْ هَذِهِ السُّنَّةُ إِلَى آخِرِ الْأَبَدِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیت اللہ شریف کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی اس لئے کی تھی تاکہ مشرکین آپ کی قوت و طاقت دیکھ لیں۔ جناب مخرومی کی روایت میں ہے، تاکہ قریش والے آپ کی قوت دیکھ لیں۔
ولم يمكن سؤاله، إذا كان العالم ماشيا بين الصفا والمروةوَلَمْ يُمْكِنْ سُؤَالُهُ، إِذَا كَانَ الْعَالِمُ مَاشِيًا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
اور لوگوں نے اس سے اپنے دینی مسائل پوچھنے ہوں جو اس کے پیدل چلنے کہ وجہ سے ممکن نہ ہوتو ایسے ہجوم کی وجہ سے عالم دین سواری پر بیٹھ کر صفا مروہ کی سعی کرسکتا ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں بیت اللہ شریف کا طواف اور صفا مروہ کی سعی سواری پر بیٹھ کر کی تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں۔ کیونکہ لوگوں نے آپ کو چاروں طرف سے ڈھانپ لیا تھا۔ جناب عبدالرحمٰن اور ابن معمر کی روایت میں یہ اضافہ ہے، تاکہ لوگ آپ سے دینی مسائل پوچھ سکیں، کیونکہ (پیدل چلتے ہوئے) لوگوں نے آپ کو ڈھانپ لیا تھا۔
والدليل على ان الركوب بينهما إباحة لا انه سنة واجبة، ولا انه سنة فضيلة بل هي سنة إباحة وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الرُّكُوبَ بَيْنَهُمَا إِبَاحَةٌ لَا أَنَّهُ سُنَّةٌ وَاجِبَةٌ، وَلَا أَنَّهُ سُنَّةُ فَضِيلَةٍ بَلْ هِيَ سُنَّةُ إِبَاحَةٍ
جبکہ سعی کرنے والے کو لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے تکلیف کا سامنا ہو۔ اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ صفا اور مروہ کے درمیان سواری پر بیٹھنا جائز ہے، نہ یہ سنّت موَکدہ ہے اور نہ سنّت فضیلت بلکہ یہ جواز کے لئے ہے
سیدنا ابوطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ مجھے بتائیں کہ صفا اور مروہ کی سعی سوار ہوکر کرنے کا کیا حُکم ہے کیونکہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ یہ سنّت نبوی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا ہے (کہ نبی اکرم نے صفا مروہ کی سعی سوار ہو کر کی تھی) اور یہ بات غلط کی ہے کہ یہ سنّت ہے۔ (اصل واقعہ یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ تشریف لائے تو صفا اور مروہ کی سعی شروع کی، پس اہلِ مکّہ نکل آئے حتّیٰ کہ عورتیں بھی آپ کی زیارت کے لئے آئیں۔ اور آپ کے پاس سے کسی کو مار کر بٹایا نہیں جاتا تھا اور نہ آ پکو لوگ چھوڑتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنی سواری منگوائی اور اس پر سوار ہوگئے اور اگر لوگ آپ کو پیدل سعی کرنے دیتے تو آپ کو پیدل سعی کرنا ہی زیادہ پسند تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ انہوں نے سچ کہا ہے اور غلط بیانی بھی کی ہے۔ اس سے اُن کی مراد یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کی سعی سوار ہوکر کی تھی اور ان کی یہ بات غلط ہے کہ یہ سنّت موکدہ یا فضیلت کی حامل سنّت ہے، بیشک یہ تو صرف جواز کے لئے ہے نہ واجب ہے نہ فضیلت کا باعث۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر بیٹھ کر طواف کیا، آپ اپنی چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام کرتے تھے۔