صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
حدیث نمبر: 2738
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى يعني ابن سعيد ، حدثنا عبيد الله بن ابي زياد القداح . ح وحدثنا علي بن سعيد المسروقي ، حدثنا يحيى بن ابي زائدة . ح وحدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا مكي بن إبراهيم . ح وحدثنا سلم بن جنادة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، كلهم عن عبد الله بن ابي زياد ، عن القاسم ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما جعل رمي الجمار، والطواف بالبيت، لإقامة ذكر الله ليس لغيره" ، انتهى حديث بندار، وزاد الآخرون في الحديث: والسعي بين الصفا والمروةحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْقِدَاحُ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْمَسْرُوقِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ . ح وحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، كُلُّهُمْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ رَمْيُ الْجِمَارِ، وَالطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، لإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ لَيْسَ لِغَيْرِهِ" ، انْتَهَى حَدِيثُ بُنْدَارٍ، وَزَادَ الآخَرُونَ فِي الْحَدِيثِ: وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: بیشک جمرات کو رمی کرنا اور بیت اللہ شریف کا طواف کرنا، یہ سب اللہ تعالی کے ذکر کرنے کے لئے مقرر کیے گئے ہیں، اس کے سوا کوئی مقصد نہیں۔ جناب بندار کی روایت انہی الفاظ پر ختم ہو جاتی ہے۔ دیگر راویوں کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کرنے کا مقصد بھی اللہ تعالی کا ذکر کرنا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
1929. ‏(‏188‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي التَّكَلُّمِ بِالْخَيْرِ فِي الطَّوَافِ، وَالزَّجْرِ عَنِ الْكَلَامِ السَّيِّئِ فِيهِ
1929. طواف کے دوران خیر و بھلائی کی گفتگو کرنے کی رخصت اور بُری بات چیت کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2739
Save to word اعراب
حدثنا يوسف بن موسى ، حدثنا جرير ، عن عطاء بن السايب ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الطواف بالبيت مثل الصلاة، إلا انكم تتكلمون، فمن تكلم فلا يتكلم إلا بخير" ، قال ابو بكر: امر النبي صلى الله عليه وسلم قائد الرجل يسير قد زنقه به ان يقوده بيده وهو طائف بالبيت من باب الكلام الحسن في الطواف، قد خرجته في باب آخرحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّايِبِ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلاةِ، إِلا أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ، فَمَنْ تَكَلَّمَ فَلا يَتَكَلَّمْ إِلا بِخَيْرٍ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِدَ الرَّجُلِ يَسِيرُ قَدْ زَنَقَهُ بِهِ أَنْ يَقُودَهُ بِيَدِهِ وَهُوَ طَائِفٌ بِالْبَيْتِ مِنْ بَابِ الْكَلامِ الْحَسَنِ فِي الطَّوَافِ، قَدْ خَرَّجْتُهُ فِي بَابٍ آخَرَ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: بیشک بیت اللہ شریف کا طواف نماز کی مانند ہے مگر اس میں تمہیں بات چیت کی اجازت ہے۔ لہذا جو شخص بات چیت کرے تو وہ صرف خیر و بھلائی والی بات چیت کرے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طواف کرنے کے دوران اس شخص کو حُکم دینا جو ایک آدی کی ناک میں چمڑے کی رسی ڈالے اُسے طواف کرا رہا تھا، کہ وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر طواف کرائے، یہ حدیث بھی اچھی اور عمده كلام کرنے کے باب کے متعلق ہے۔ میں نے اس حدیث کو ایک اور باب میں بیان کیا ہے۔ (دیکھیے حدیث نمبر 2751)

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
1930. ‏(‏189‏)‏ بَابُ الطَّوَافِ مِنْ وَرَاءِ الْحِجْرِ
1930. حطیم کے باہر سے طواف کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2740
Save to word اعراب
حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي ، حدثنا سفيان ، عن هشام بن حجير ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، قال: " الحجر من البيت، لان رسول الله صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت من ورائه، وقال الله: وليطوفوا بالبيت العتيق سورة الحج آية 29" ، قال ابو بكر: هذه اللفظة الحجر من البيت من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبنا ان الاسم باسم المعرفة بالالف واللام قد يقع على بعض الشيء، والنبي صلى الله عليه وسلم امر عائشة ان تصلي في الحجر، وقال:" الحجر من البيت"، اراد بعض الحجر لا كله، وابن عباس رحمه الله، لم يرد بقوله: الحجر من البيت جميع الحجر، وإنما اراد بعضه على ما خبرت عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: ان بعض الحجر من البيت، لا جميعهحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " الْحِجْرُ مِنَ الْبَيْتِ، لأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بِالْبَيْتِ مِنْ وَرَائِهِ، وَقَالَ اللَّهُ: وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ سورة الحج آية 29" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ الْحَجَرُ مِنَ الْبَيْتِ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الاسْمَ بِاسْمِ الْمَعْرِفَةِ بِالأَلِفِ وَاللامِ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِ الشَّيْءِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَائِشَةَ أَنْ تُصَلِّيَ فِي الْحِجْرِ، وَقَالَ:" الْحِجْرُ مِنَ الْبَيْتِ"، أَرَادَ بَعْضَ الْحِجْرِ لا كُلَّهُ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَحِمَهُ اللَّهُ، لَمْ يُرِدْ بِقَوْلِهِ: الْحِجْرُ مِنَ الْبَيْتِ جَمِيعَ الْحِجْرِ، وَإِنَّمَا أَرَادَ بَعْضَهُ عَلَى مَا خَبَّرَتْ عَائِشَةُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ بَعْضَ الْحِجْرِ مِنَ الْبَيْتِ، لا جَمِيعَهُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کا طواف حطیم کے باہر سے کیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «‏‏‏‏وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ» ‏‏‏‏ [ سورة الحج: 29 ] اور چاہیے کہ وہ قدیم گھر (بیت اللہ) کا طواف کریں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے یہ اسی قسم کے ہیں۔ جس کے بارے میں ہم اپنی کتب میں کئی مقامات پر واضح کرتے ہیں کہ الف لام کے ساتھ اسم معرفہ کا اطلاق (کل چیز کی بجائے) بعض دفع کسی چیز کے کچھ حصّے پر بول دیا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حطیم میں نماز پڑھنے کا حُکم دیا تھا اور فرمایا تھا: حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے آپ کی مراد یہ تھی کہ کچھ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے مکمّل حطیم (بیت الله کا) حصّہ نہیں ہے اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فرمان حطیم بیت اللہ میں سے ہے سے ان کی مراد یہ نہیں کہ مکمّل حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے، بلکہ ان کی مراد یہ تھی کہ حطیم کا کچھ حصّہ بیت اللہ کا حصّہ ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی ہے کہ حطیم کا کچھ حصّہ بیت اللہ میں سے ہے، پورا حطیم بیت اللہ کا حصّہ نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
1931. ‏(‏190‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى صِحَّةِ
1931. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی جو تاویل میں نے کی ہے،
حدیث نمبر: Q2741
Save to word اعراب
ما تاولت قول ابن عباس والبيان ان بعض الحجر من البيت لا جميعهمَا تَأَوَّلْتُ قَوْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَيَانُ أَنَّ بَعْضَ الْحِجْرِ مِنَ الْبَيْتِ لَا جَمِيعِهِ
اس کے صحیح ہونے کی دلیل کا بیان اور اس بات کا بیان کہ حطیم کا پورا حصّہ بیت اللہ کا حصّہ نہیں بلکہ کچھ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2741
Save to word اعراب
حدثنا الفضل بن يعقوب الجزري ، اخبرنا ابن بكر ، اخبرنا ابن جريج . ح وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: سمعت عبد الله بن عبيد بن عمير ، والوليد بن عطاء ، عن الحارث بن عبد الله بن ابي ربيعة ، قال: قال عبد الله بن عبيد: وفد الحارث بن عبد الله على عبد الملك بن مروان في خلافته، فقال عبد الملك: ما اظن ابا خبيب يعني ابن الزبير سمع من عائشة ما كان يزعم انه سمعه منها، قال الحارث: بلى، انا سمعته منها، قال: سمعتها تقول ماذا؟ قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن قومك استقصروا من بنيان البيت، وإني لولا حداثة عهدهم بالشرك اعدت ما تركوا منه، فإن بدا لقومك من بعدي ان يبنوه فهلمي، فلاريك ما تركوا منه" ، فاراها قريبا من سبعة اذرع هذا حديث عبد الله بن عبيد، وزاد عليه الوليد بن عطاء، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لجعلت له بابين موضوعين في الارض شرقيا وغربيا، وهل تدرين لم كان قومك رفعوا بابها"؟ قلت: لا، قال:" تعززا الا يدخلها إلا من ارادوا، فكان الرجل إذا كرهوا ان يدخلها دعوه يرتقي حتى إذا كاد ان يدخل دفعوه فسقط"، قال عبد الملك للحارث: اانت سمعتها تقول هذا؟ قال: نعم، فنكت ساعة بعصاه، ثم قال: وددت اني تركته، وما تحمل، جميعا لفظا واحدا غير ان محمدا، قال الوليد بن عطاء بن جناب، وقال: قال الحارث: انا سمعته منها، قال: فكان الحارث مصدقا لا يكذب، قال: سمعتها تقول ماذا؟ قال: سمعتها تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" لجعلت لها بابين"، وقال:" يدعونه يرتقي"حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بنُ يَعْقُوبَ الْجَزَرِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . حَ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وَالْوَلِيدَ بْنَ عَطَاءٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ: وَفَدَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرَوَانَ فِي خِلافَتِهِ، فَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: مَا أَظُنُّ أَبَا خُبَيْبٍ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ مَا كَانَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهَا، قَالَ الْحَارِثُ: بَلَى، أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْهَا، قَالَ: سَمِعْتَهَا تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوا مِنْ بُنْيَانِ الْبَيْتِ، وَإِنِّي لَوْلا حَدَاثَةُ عَهْدِهِمْ بِالشِّرْكِ أَعَدْتُ مَا تَرَكُوا مِنْهُ، فَإِنْ بَدَا لِقَوْمِكِ مِنْ بَعْدِي أَنْ يَبْنُوهُ فَهَلُمِّي، فَلأُرِيكِ مَا تَرَكُوا مِنْهُ" ، فَأَرَاهَا قَرِيبًا مِنْ سَبْعَةِ أَذْرُعٍ هَذَا حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَزَادَ عَلَيْهِ الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ مَوْضُوعَيْنِ فِي الأَرْضِ شَرْقِيًّا وَغَرْبِيًّا، وَهَلْ تَدْرِينَ لِمَ كَانَ قَوْمُكِ رَفَعُوا بَابَهَا"؟ قُلْتُ: لا، قَالَ:" تَعَزُّزًا أَلا يَدْخُلَهَا إِلا مَنْ أَرَادُوا، فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَرِهُوا أَنْ يَدْخُلَهَا دَعُوهُ يَرْتَقِي حَتَّى إِذَا كَادَ أَنْ يَدْخُلَ دَفَعُوهُ فَسَقَطَ"، قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ لِلْحَارِثِ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهَا تَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَنَكَتَ سَاعَةً بِعَصَاهُ، ثُمَّ قَالَ: وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُ، وَمَا تَحَمَّلَ، جَمِيعًا لَفْظًا وَاحِدًا غَيْرَ أَنَّ مُحَمَّدًا، قَالَ الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ جَنَابٍ، وَقَالَ: قَالَ الْحَارِثِ: أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْهَا، قَالَ: فَكَانَ الْحَارِثُ مُصَدَّقًا لا يُكَذَّبُ، قَالَ: سَمِعْتَهَا تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَ: سَمِعْتُهَا تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" لَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ"، وَقَالَ:" يَدَعُونَهُ يَرْتَقِي"
جناب عبد اللہ بن عبید بیان کرتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان کے دور حکومت میں حارث بن عبد اللہ ان کے پاس ایک قاصد کی حیثیت سے گئے تو عبدالملک نے کہا کہ میرے خیال میں سیدنا ابو خبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سُنی نہیں ہے جس کے سُننے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ جناب حارث کہتے ہیں کہ کیوں نہیں، وہ حدیث تو میں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔ عبد الملک نے کہا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ جناب حارث کہتے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک تیری قوم نے بیت اللہ کی بنیادوں کو چھوٹا کردیا تھا اور اگر وہ نئے نئے شرک سے نکل کر مسلمان نہ ہوئے ہوتے تو میں اس حصّے کو بیت اللہ کی بنیادوں میں دوبارہ شامل کردیتا جو اُنہوں نے چھوڑ دیا تھا لہٰذا اگر میرے بعد تیری قوم بیت الله کو (پُرانی بنیادوں پر) بنانا چاہے، تو آؤ میں تمہیں وہ حصّہ دکھا دوں جو اُنہوں نے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تقریبا ساٹھ ہاتھ کے برابر کی جگہ دکھائی (جو بیت اللہ میں شامل نہیں کی گئی تھی اور وہ حطیم یا مجر کہلاتی ہے) یہ روایت جناب عبد اللہ بن عبید کی ہے۔ جناب ولید بن عطاء نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں بیت اللہ کے زمین سے ملے ہوئے دو دروازے بناتا، ایک مشرقی جانب اور دوسرا مغربی جانب۔ کیا تمہیں معلوم ہے تیری قوم نے بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں رکھا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تکبر و غرور کے اظہار کے لئے، تاکہ بیت اللہ شریف میں صرف و شخص داخل ہوسکے جس کو یہ اجازت دیں۔ اور جب ان کا ناپسندیدہ شخص اس میں داخل ہونے کے لئے اوپر چڑھتا تو وہ اسے چڑھنے دیتے، حتّیٰ کہ جب وہ بیت اللہ میں داخل ہونے کے قریب ہوتا تو اسے دھکا دیکر گرا دیتے۔ عبد الملک نے حارث سے کہا کہ کیا تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے خود سنا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، سنا ہے۔ اس پر عبد الملک کچھ دیر سر جھکائے زمین کریدتا رہا پھر کہنے لگا کہ کاش میں بیت اللہ کو (سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی تعمیر کی ہوئی بنیادوں پر) باقی رہنے دیتا اور (بیت اللہ کو توڑ کر نئے سرے سے بنانے کی ذمہ داری انہی پر رہنے دیتا، جو اُنہوں نے اپنے ذمہ لی تھی۔ سب راویوں کی روایات کے الفاظ متحد ہیں، صرف محمد کی روایت میں یہ الفاظ مختلف آئے ہیں۔ ولید بن عطاء بن جناب بیان کرتے ہیں کہ حارث نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سُنی ہے۔ جناب حارث اس حدیث کی تصدیق کرنے والے تھے۔ جھٹلانے اور انکار کرنے والے نہیں تھے۔ عبد الملک نے پوچھا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ جناب حارث نے جواب دیا کہ میں نے انہیں سنا وہ فرما رہی تھیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، اور فرمایا کہ تو میں اس کے دو دروازے بناتا۔ اور فرمایا: وہ اس شخص کو اوپر چڑھنے دیتے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1932. ‏(‏191‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْعِلَّةِ الَّتِي لَهَا طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرَاءِ الْحِجْرِ
1932. اس علت اور سبب کا بیان جس کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے باہر سے طواف کیا تھا
حدیث نمبر: Q2742
Save to word اعراب
إذ الطائف ببناء البيت إذا خلف الحجر وراءه غير طائف لجميع الكعبة إذ بعض الحجر من الكعبة على ما خبر المصطفى صلى الله عليه وسلم، والله- عز وجل- امر بالطواف بالبيت العتيق لا ببعضهإِذِ الطَّائِفُ بِبِنَاءِ الْبَيْتِ إِذَا خَلَّفَ الْحِجْرَ وَرَاءَهُ غَيْرُ طَائِفٍ لِجَمِيعِ الْكَعْبَةِ إِذْ بَعْضُ الْحِجْرِ مِنَ الْكَعْبَةِ عَلَى مَا خَبَّرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- أَمَرَ بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ لَا بِبَعْضِهِ

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2742
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن العلاء بن كريب ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت البيت، فبنيته على اساس إبراهيم، فإن قريشا استقصرت في بنائه، وجعلت له خلفا" ، قال ابو بكر: يعني بابا آخر في خلف، ثناه سلم بن جنادة ، حدثنا ابو معاوية ، عن هشام ، بهذا مثله، ولم يقل: ليحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ، فَبَنَيْتُهُ عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ قُرَيْشًا اسْتَقْصَرَتْ فِي بِنَائِهِ، وَجَعَلَتْ لَهُ خَلْفًا" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَعْنِي بَابًا آخَرَ فِي خَلْفٍ، ثَنَاهُ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا مِثْلَهُ، وَلَمْ يَقُلْ: لِي
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری قوم نئی نئی کفر سے نکل کر مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں بیت اللہ کو توڑ کر اسے حضرت ابراہیم عليه السلام کی بنیادوں پر بنا دیتا۔ کیونکہ قریش نے (اسے تیار کرتے وقت) اس کی بنیادوں کو چھوٹا کر دیا تھا اور میں کعبہ شریف کی پچھلی جانب ایک دروازہ بناتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ خَلْفًا کا معنی ہے، ایک اور دروازہ پچھلی جانب بنا دیتا۔ سلم بن جنادہ نے اس کو ابومعاویہ کے حوالے سے ہشام سے بیان کیا ہے۔ لیکن اس میں لِي (مجھے) کا لفظ بیان نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1933. ‏(‏192‏)‏ بَابُ ذِكْرِ طَوَافِ الْقَارِنِ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ عِنْدَ مَقْدِمِهِ مَكَّةَ
1933. حج قران کرنے والے کے مکّہ مکرّمہ پہنچ کر طواف کرنے اور اس بات کا بیان کہ حج قران کرنے والے پر صرف ایک ابتدائی طواف واجب ہے۔
حدیث نمبر: Q2743
Save to word اعراب
والبيان ان الواجب عليه طواف واحد في الابتداء، ضد قول من زعم ان على القارن في الابتداء طوافين وسعيينوَالْبَيَانُ أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَيْهِ طَوَافٌ وَاحِدٌ فِي الِابْتِدَاءِ، ضِدُّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلَى الْقَارِنِ فِي الِابْتِدَاءِ طَوَافَيْنِ وَسَعْيَيْنِ
اس شخص کو قول کے برخلاف جو کہتا ہے کہ حج قران کرنے والے پر ابتداء میں دو طواف اور دو مرتبہ سعی کرنا واجب ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2743
Save to word اعراب
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، عن ايوب بن موسى ، عن نافع ، قال: اراد ابن عمر الحج، فقال: اجعلها عمرة، فإن انا صددت صنعت كما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما اشرف على البيداء، قال: ما ارى سبيلهما إلا واحدا، واشهدكم إني قد اوجبت مع عمرتي حجة، فلما اتى قديدا اشترى هديا وساقه معه حتى قدم مكة، فطاف بالبيت، وصلى خلف المقام ركعتين، وبين الصفا والمروة يعني طاف ، وقال: هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ الْحَجَّ، فَقَالَ: اجْعَلْهَا عُمْرَةً، فَإِنْ أَنَا صُدِدْتُ صَنَعْتُ كَمَا صَنَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا أَرَى سَبِيلَهُمَا إِلا وَاحِدًا، وَأُشْهِدُكُمْ إِنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ مَعَ عُمْرَتِي حَجَّةً، فَلَمَّا أَتَى قُدَيْدًا اشْتَرَى هَدْيًا وَسَاقَهُ مَعَهُ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ يَعْنِي طَافَ ، وَقَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ"
امام نافع رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حج کا ارادہ کیا، پھر کہنے لگے کہ میں اسے عمرہ بنا لیتا ہوں، اگر مجھے راستے میں روک دیا گیا تو میں اس طرح کروںگا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔ پھر جب بیداء مقام پر پہنچے تو فرمایا کہ میرے خیال میں حج اور عمرے کا ایک ہی حُکم ہے۔ لہذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنےعمرے کے ساتھ حج بھی واجب کرلیا ہے (حج قران کی نیت کرلی ہے) پھر جب قدید مقام پر پہنچے تو قربانی کا اونٹ خریدا اور اسے اپنے ساتھ لیکر چل دیئے حتّیٰ کہ مکّہ مکرّمہ پہنچ گئے۔ پس بیت اللہ شریف کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت ادا کیں۔ اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2744
Save to word اعراب
حدثنا العباس بن عبد العظيم ، ويحيى بن حكيم ، قالا: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا مالك بن انس ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ،" ان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم الذين قرنوا طافوا طوافا واحدا" حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ،" أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ قَرَنُوا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جن صحابہ کرام نے حج قرن کیا تھا انہوں نے ایک ہی طواف کیا تھا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.