ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بیشک جمرات کو رمی کرنا اور بیت اللہ شریف کا طواف کرنا، یہ سب اللہ تعالی کے ذکر کرنے کے لئے مقرر کیے گئے ہیں، اس کے سوا کوئی مقصد نہیں۔“ جناب بندار کی روایت انہی الفاظ پر ختم ہو جاتی ہے۔ دیگر راویوں کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کرنے کا مقصد بھی اللہ تعالی کا ذکر کرنا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”بیشک بیت اللہ شریف کا طواف نماز کی مانند ہے مگر اس میں تمہیں بات چیت کی اجازت ہے۔ لہذا جو شخص بات چیت کرے تو وہ صرف خیر و بھلائی والی بات چیت کرے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طواف کرنے کے دوران اس شخص کو حُکم دینا جو ایک آدی کی ناک میں چمڑے کی رسی ڈالے اُسے طواف کرا رہا تھا، کہ وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر طواف کرائے، یہ حدیث بھی اچھی اور عمده كلام کرنے کے باب کے متعلق ہے۔ میں نے اس حدیث کو ایک اور باب میں بیان کیا ہے۔ (دیکھیے حدیث نمبر 2751)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کا طواف حطیم کے باہر سے کیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ» [ سورة الحج: 29 ]”اور چاہیے کہ وہ قدیم گھر (بیت اللہ) کا طواف کریں۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے“ یہ اسی قسم کے ہیں۔ جس کے بارے میں ہم اپنی کتب میں کئی مقامات پر واضح کرتے ہیں کہ الف لام کے ساتھ اسم معرفہ کا اطلاق (کل چیز کی بجائے) بعض دفع کسی چیز کے کچھ حصّے پر بول دیا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حطیم میں نماز پڑھنے کا حُکم دیا تھا اور فرمایا تھا: ”حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے“ آپ کی مراد یہ تھی کہ کچھ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے مکمّل حطیم (بیت الله کا) حصّہ نہیں ہے اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فرمان ”حطیم بیت اللہ میں سے ہے“ سے ان کی مراد یہ نہیں کہ مکمّل حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے، بلکہ ان کی مراد یہ تھی کہ حطیم کا کچھ حصّہ بیت اللہ کا حصّہ ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی ہے کہ حطیم کا کچھ حصّہ بیت اللہ میں سے ہے، پورا حطیم بیت اللہ کا حصّہ نہیں ہے۔
ما تاولت قول ابن عباس والبيان ان بعض الحجر من البيت لا جميعهمَا تَأَوَّلْتُ قَوْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَيَانُ أَنَّ بَعْضَ الْحِجْرِ مِنَ الْبَيْتِ لَا جَمِيعِهِ
اس کے صحیح ہونے کی دلیل کا بیان اور اس بات کا بیان کہ حطیم کا پورا حصّہ بیت اللہ کا حصّہ نہیں بلکہ کچھ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے
حدثنا الفضل بن يعقوب الجزري ، اخبرنا ابن بكر ، اخبرنا ابن جريج . ح وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: سمعت عبد الله بن عبيد بن عمير ، والوليد بن عطاء ، عن الحارث بن عبد الله بن ابي ربيعة ، قال: قال عبد الله بن عبيد: وفد الحارث بن عبد الله على عبد الملك بن مروان في خلافته، فقال عبد الملك: ما اظن ابا خبيب يعني ابن الزبير سمع من عائشة ما كان يزعم انه سمعه منها، قال الحارث: بلى، انا سمعته منها، قال: سمعتها تقول ماذا؟ قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن قومك استقصروا من بنيان البيت، وإني لولا حداثة عهدهم بالشرك اعدت ما تركوا منه، فإن بدا لقومك من بعدي ان يبنوه فهلمي، فلاريك ما تركوا منه" ، فاراها قريبا من سبعة اذرع هذا حديث عبد الله بن عبيد، وزاد عليه الوليد بن عطاء، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لجعلت له بابين موضوعين في الارض شرقيا وغربيا، وهل تدرين لم كان قومك رفعوا بابها"؟ قلت: لا، قال:" تعززا الا يدخلها إلا من ارادوا، فكان الرجل إذا كرهوا ان يدخلها دعوه يرتقي حتى إذا كاد ان يدخل دفعوه فسقط"، قال عبد الملك للحارث: اانت سمعتها تقول هذا؟ قال: نعم، فنكت ساعة بعصاه، ثم قال: وددت اني تركته، وما تحمل، جميعا لفظا واحدا غير ان محمدا، قال الوليد بن عطاء بن جناب، وقال: قال الحارث: انا سمعته منها، قال: فكان الحارث مصدقا لا يكذب، قال: سمعتها تقول ماذا؟ قال: سمعتها تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" لجعلت لها بابين"، وقال:" يدعونه يرتقي"حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بنُ يَعْقُوبَ الْجَزَرِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . حَ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وَالْوَلِيدَ بْنَ عَطَاءٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ: وَفَدَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرَوَانَ فِي خِلافَتِهِ، فَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: مَا أَظُنُّ أَبَا خُبَيْبٍ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ مَا كَانَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهَا، قَالَ الْحَارِثُ: بَلَى، أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْهَا، قَالَ: سَمِعْتَهَا تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوا مِنْ بُنْيَانِ الْبَيْتِ، وَإِنِّي لَوْلا حَدَاثَةُ عَهْدِهِمْ بِالشِّرْكِ أَعَدْتُ مَا تَرَكُوا مِنْهُ، فَإِنْ بَدَا لِقَوْمِكِ مِنْ بَعْدِي أَنْ يَبْنُوهُ فَهَلُمِّي، فَلأُرِيكِ مَا تَرَكُوا مِنْهُ" ، فَأَرَاهَا قَرِيبًا مِنْ سَبْعَةِ أَذْرُعٍ هَذَا حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَزَادَ عَلَيْهِ الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ مَوْضُوعَيْنِ فِي الأَرْضِ شَرْقِيًّا وَغَرْبِيًّا، وَهَلْ تَدْرِينَ لِمَ كَانَ قَوْمُكِ رَفَعُوا بَابَهَا"؟ قُلْتُ: لا، قَالَ:" تَعَزُّزًا أَلا يَدْخُلَهَا إِلا مَنْ أَرَادُوا، فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَرِهُوا أَنْ يَدْخُلَهَا دَعُوهُ يَرْتَقِي حَتَّى إِذَا كَادَ أَنْ يَدْخُلَ دَفَعُوهُ فَسَقَطَ"، قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ لِلْحَارِثِ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهَا تَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَنَكَتَ سَاعَةً بِعَصَاهُ، ثُمَّ قَالَ: وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُ، وَمَا تَحَمَّلَ، جَمِيعًا لَفْظًا وَاحِدًا غَيْرَ أَنَّ مُحَمَّدًا، قَالَ الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ جَنَابٍ، وَقَالَ: قَالَ الْحَارِثِ: أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْهَا، قَالَ: فَكَانَ الْحَارِثُ مُصَدَّقًا لا يُكَذَّبُ، قَالَ: سَمِعْتَهَا تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَ: سَمِعْتُهَا تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" لَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ"، وَقَالَ:" يَدَعُونَهُ يَرْتَقِي"
جناب عبد اللہ بن عبید بیان کرتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان کے دور حکومت میں حارث بن عبد اللہ ان کے پاس ایک قاصد کی حیثیت سے گئے تو عبدالملک نے کہا کہ میرے خیال میں سیدنا ابو خبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سُنی نہیں ہے جس کے سُننے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ جناب حارث کہتے ہیں کہ کیوں نہیں، وہ حدیث تو میں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔ عبد الملک نے کہا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ جناب حارث کہتے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تیری قوم نے بیت اللہ کی بنیادوں کو چھوٹا کردیا تھا اور اگر وہ نئے نئے شرک سے نکل کر مسلمان نہ ہوئے ہوتے تو میں اس حصّے کو بیت اللہ کی بنیادوں میں دوبارہ شامل کردیتا جو اُنہوں نے چھوڑ دیا تھا لہٰذا اگر میرے بعد تیری قوم بیت الله کو (پُرانی بنیادوں پر) بنانا چاہے، تو آؤ میں تمہیں وہ حصّہ دکھا دوں جو اُنہوں نے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تقریبا ساٹھ ہاتھ کے برابر کی جگہ دکھائی (جو بیت اللہ میں شامل نہیں کی گئی تھی اور وہ حطیم یا مجر کہلاتی ہے) یہ روایت جناب عبد اللہ بن عبید کی ہے۔ جناب ولید بن عطاء نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں بیت اللہ کے زمین سے ملے ہوئے دو دروازے بناتا، ایک مشرقی جانب اور دوسرا مغربی جانب۔ کیا تمہیں معلوم ہے تیری قوم نے بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں رکھا تھا؟“ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکبر و غرور کے اظہار کے لئے، تاکہ بیت اللہ شریف میں صرف و شخص داخل ہوسکے جس کو یہ اجازت دیں۔ اور جب ان کا ناپسندیدہ شخص اس میں داخل ہونے کے لئے اوپر چڑھتا تو وہ اسے چڑھنے دیتے، حتّیٰ کہ جب وہ بیت اللہ میں داخل ہونے کے قریب ہوتا تو اسے دھکا دیکر گرا دیتے۔“ عبد الملک نے حارث سے کہا کہ کیا تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے خود سنا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، سنا ہے۔ اس پر عبد الملک کچھ دیر سر جھکائے زمین کریدتا رہا پھر کہنے لگا کہ کاش میں بیت اللہ کو (سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی تعمیر کی ہوئی بنیادوں پر) باقی رہنے دیتا اور (بیت اللہ کو توڑ کر نئے سرے سے بنانے کی ذمہ داری انہی پر رہنے دیتا، جو اُنہوں نے اپنے ذمہ لی تھی۔ سب راویوں کی روایات کے الفاظ متحد ہیں، صرف محمد کی روایت میں یہ الفاظ مختلف آئے ہیں۔ ولید بن عطاء بن جناب بیان کرتے ہیں کہ حارث نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سُنی ہے۔ جناب حارث اس حدیث کی تصدیق کرنے والے تھے۔ جھٹلانے اور انکار کرنے والے نہیں تھے۔ عبد الملک نے پوچھا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ جناب حارث نے جواب دیا کہ میں نے انہیں سنا وہ فرما رہی تھیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، اور فرمایا کہ ”تو میں اس کے دو دروازے بناتا۔“ اور فرمایا: ”وہ اس شخص کو اوپر چڑھنے دیتے“۔
إذ الطائف ببناء البيت إذا خلف الحجر وراءه غير طائف لجميع الكعبة إذ بعض الحجر من الكعبة على ما خبر المصطفى صلى الله عليه وسلم، والله- عز وجل- امر بالطواف بالبيت العتيق لا ببعضهإِذِ الطَّائِفُ بِبِنَاءِ الْبَيْتِ إِذَا خَلَّفَ الْحِجْرَ وَرَاءَهُ غَيْرُ طَائِفٍ لِجَمِيعِ الْكَعْبَةِ إِذْ بَعْضُ الْحِجْرِ مِنَ الْكَعْبَةِ عَلَى مَا خَبَّرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- أَمَرَ بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ لَا بِبَعْضِهِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری قوم نئی نئی کفر سے نکل کر مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں بیت اللہ کو توڑ کر اسے حضرت ابراہیم عليه السلام کی بنیادوں پر بنا دیتا۔ کیونکہ قریش نے (اسے تیار کرتے وقت) اس کی بنیادوں کو چھوٹا کر دیا تھا اور میں کعبہ شریف کی پچھلی جانب ایک دروازہ بناتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ”خَلْفًا“ کا معنی ہے، ایک اور دروازہ پچھلی جانب بنا دیتا۔ سلم بن جنادہ نے اس کو ابومعاویہ کے حوالے سے ہشام سے بیان کیا ہے۔ لیکن اس میں ”لِي“(مجھے) کا لفظ بیان نہیں کیا۔
والبيان ان الواجب عليه طواف واحد في الابتداء، ضد قول من زعم ان على القارن في الابتداء طوافين وسعيينوَالْبَيَانُ أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَيْهِ طَوَافٌ وَاحِدٌ فِي الِابْتِدَاءِ، ضِدُّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلَى الْقَارِنِ فِي الِابْتِدَاءِ طَوَافَيْنِ وَسَعْيَيْنِ
اس شخص کو قول کے برخلاف جو کہتا ہے کہ حج قران کرنے والے پر ابتداء میں دو طواف اور دو مرتبہ سعی کرنا واجب ہے
امام نافع رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حج کا ارادہ کیا، پھر کہنے لگے کہ میں اسے عمرہ بنا لیتا ہوں، اگر مجھے راستے میں روک دیا گیا تو میں اس طرح کروںگا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔ پھر جب بیداء مقام پر پہنچے تو فرمایا کہ میرے خیال میں حج اور عمرے کا ایک ہی حُکم ہے۔ لہذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنےعمرے کے ساتھ حج بھی واجب کرلیا ہے (حج قران کی نیت کرلی ہے) پھر جب قدید مقام پر پہنچے تو قربانی کا اونٹ خریدا اور اسے اپنے ساتھ لیکر چل دیئے حتّیٰ کہ مکّہ مکرّمہ پہنچ گئے۔ پس بیت اللہ شریف کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت ادا کیں۔ اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔