سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے «اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَمِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ وَمِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ وَمِنْ سُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الأَهْلِ وَالْمَالِ» ”اے اللہ تُو ہی سفر میں ہمارا ساتھی اور ہمارے گھر والوں میں خلیفہ ہے۔ اے اللہ، تُو ہمارے سفر میں ہمارا ساتھی بن جا اور ہمارے گھر والوں میں ہمارا خلیفہ ہوجا۔ اے اللہ، میں سفر کی مشکلات اور دشواریوں سے واپسی پر رنج وغم کے مصیبت سے، نعمتوں کے حصول کے بعد نعمتوں کی محرومی سے، مظلوم کی بد دعا سے اور اہل وعیال اور مال و دولت کے بُرے منظرسے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ جناب احمد بن مقدار اور احمد بن عبدہ کی روایات میں ہے کہ جناب عاصم سے الحور کا معنی پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم نے یہ مثال نہیں سنی ”حَارَه بَعدَ مَا كَان“ وہ مالدار تھا پھر مفلس وہ محتاج ہوگیا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں نوسال قیام کیا مگر اس دوران میں حج نہیں کیا پھر آپ نے حج کرنے کا اعلان کردیا یہ سن کر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس سال) حج ادا فرمائیںگے بیشمار لوگ مدینہ منوّرہ آگئے ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں حج کرے۔ پھر کچھ حدیث بیان کی اور فرمایا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (احرام باندھ کر) مسجد ذوالحلیفہ سے روانہ ہوئے تو سواری پر سوار ہوگئے جبکہ آپ کے ساتھ بیشمار لوگ سواریوں پر سوار اور بہت سارے پیدل چل رہے تھے پھر بقیہ حدیث بیان کی۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کیا تو مدینہ منوّرہ سے مکّہ مکرّمہ تک پیدل سفر طے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے تہہ بند اپنی کمروں کے ساتھ باندھ لو۔“ اور آپ ایسی تیز چال چلے جس میں دوڑ بھی شامل تھی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ والے سال (مدینہ منوّرہ سے مکّہ مکرّمہ کے لئے) روانہ ہوئے کچھ سفر کرنے کے بعد آپ کے پیدل چلنے والے صحابہ کرام آپ کے پاس جمع ہو گئے اور انہوں نے صفیں بنالیں وہ آپس میں کہنے لگے کہ ہم (سفر کی مشقّت سے بچنے کے لئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا خیر کرا لتیے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے لئے سفر کرنا دشوار ہوگیا ہے اور مسافت طویل ہوگئی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیز چلنے سے مدد لے لو کیونکہ تیز چلنے سے مسافت جلد طے ہوگی اور تم خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرو گے۔“ صحابہ کرام فرماتے ہیں، تو ہم نے ایسے ہی کیا ہمارے لئے سفر کرنا آسان ہوگیا اور تھکاوٹ کا احساس بھی ختم ہوگیا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ کرام نے پیدل چلنے میں مشقّت کا شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بلایا اور حُکم دیا: ”تم تیز رفتاری سے چلو۔“ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم تیز چلے تو ہم نے اس میں آسانی اور سہولت پائی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(سفر میں) بہترین ساتھی چار ہیں۔ اور بہترین جنگی دستہ چار سو مجاہدین پر مشتمل ہوتا ہے اور بہترین فوج وہ ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو اور بارہ ہزار فوجیوں پر مشتمل لشکر قلّت افراد کی وجہ سے شکست نہیں کھائے گا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لئے بہترین ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ہمسایہ وہ ہے جو اپنے ہمسائے کے حق میں بہترین ہو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا جو کچھ افراد پر مشتمل تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بلایا اور پوچھا: ”تمہیں کتنا قرآن مجید یاد ہے؟“ تو آپ نے اُن سے باری باری قرآن پڑھوا کر سُنا۔ حتّیٰ کہ ان میں سے ایک نوجوان کی باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے نوجوان تمہیں کتنا قرآن مجید حفظ ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ مجھے اتنا اتنا قرآن یاد ہے اور سورة البقره بھی یاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ تم ان کے امیر ہو۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تین افراد پر مشتمل جماعت ہو تو انہیں چاہیے کہ وہ کسی ایک کو اپنا امیر بنالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح لوگوں کو امیر بناتے تھے۔
جناب علی الازدی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں تعلیم دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سواری پر سیدھے ہوکر بیٹھ جاتے اور سفر پر روانہ ہونے لگتے تو آپ تین بار «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے، پھر یہ دعا پڑھتے: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ، اللَّهُمَّ إِنّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا البِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَليفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ» ”پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے فرماںبردار بنا دیا اور ہم میں اسے مطیع بنانے کی طاقت نہیں تھی اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ، ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں۔ اور ایسے عمل کی توفیق مانگتے ہیں جو تجھے پسند ہو۔ اے اللہ، ہمارے لئے ہمارے سفر کو آسان بنادے اور اسکی طوالت کو لپیٹ دے۔ اے اللہ تو ہی اس سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور ہمارے گھر والوں میں ہمارا خلیفہ ہے۔ اے اللہ، میں سفر کی مشکلات اور مصائب سے، واپسی پر رنج وغم میں مبتلا ہونے سے اور اپنے گھر والوں اور مال و دولت میں برے منظر دیکھنے سے تیری مانگتا ہوں۔“ پھر جب آپ واپس تشریف لاتے تو یہی دعا پڑھتے اور اس میں ان الفاظ کا اضافہ فرماتے: «آيِبُونَ، تائِبُونَ، عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» ”ہم واپس آنے والے ہیں، اپنے گناہوں کی توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کے عبادت گزار اور اس کی حمد و ثنا بیان کرنے والے ہیں۔“