سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے «اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَمِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ وَمِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ وَمِنْ سُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الأَهْلِ وَالْمَالِ» ”اے اللہ تُو ہی سفر میں ہمارا ساتھی اور ہمارے گھر والوں میں خلیفہ ہے۔ اے اللہ، تُو ہمارے سفر میں ہمارا ساتھی بن جا اور ہمارے گھر والوں میں ہمارا خلیفہ ہوجا۔ اے اللہ، میں سفر کی مشکلات اور دشواریوں سے واپسی پر رنج وغم کے مصیبت سے، نعمتوں کے حصول کے بعد نعمتوں کی محرومی سے، مظلوم کی بد دعا سے اور اہل وعیال اور مال و دولت کے بُرے منظرسے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ جناب احمد بن مقدار اور احمد بن عبدہ کی روایات میں ہے کہ جناب عاصم سے الحور کا معنی پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم نے یہ مثال نہیں سنی ”حَارَه بَعدَ مَا كَان“ وہ مالدار تھا پھر مفلس وہ محتاج ہوگیا۔