سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کے وقت کوئی دینار، درھم، غلام یا لونڈی نہیں چھوڑی تھی، سوائے اپنے خچر اور ہتھیاروں کے اور ایک زمین چھوڑی تھی جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مؤمن کو اس کی موت کے بعد بھی اعمال اور نیکوں کا اجر ملتا رہتا ہے وہ یہ ہیں، وہ علم جو اس نے دوسروں کوسکھایا اور اس کی نشر و اشاعت میں حصّہ ڈالا۔ یا اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑی یا مسجد بنا گیا یا مسافروں کے لئے سرائے بنا گیا یا نہر کھدوا گیا یا اپنی صحت اور زندگی میں کوئی مالی صدقہ کرگیا تو ان کا اجر اسے اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہے گا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اْونَهْراً كَرَاهُ کا معنی ہے ”یا اس نے نہر کھددوا دی۔“
جناب ابوعبدالرحمٰن سلمی بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو اُنہوں نے اپنے گھر کے اوپر سے لوگوں کو جھانک کر مخاطب کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کے نام کے ساتھ یاد دلاتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ رومہ کے کنویں سے کوئی شخص بغیر قیمت ادا کیے پانی نہیں پی سکتا تھا۔ پھر میں نے اُسے خرید کر ہر امیر غریب اور مسافر کے لئے وقف کردیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں (ایسے ہی ہوا تھا)۔
جناب قشیری بیان کرتے ہیں کہ جس روز سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا اس روز میں بھی اُس گھر میں موجود تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ہمیں جھانک کر دیکھا اور فرمایا، اے لوگوں میں تمہیں اللہ کی قسم اور اسلام کا حق یاد کرا کے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو مدینے میں سوائے رومہ کے کنویں کے میٹھے پانی کا کوئی کنواں موجود نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو رومہ کا کنواں خرید کر ڈول کو مسلمانوں کے ڈول کی طرح کردے۔ (یعنی اسے وقف کردے) تو اُسے اس کے بدلے میں اس سے بہتر کنواں جنّت میں ملے گا۔“ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں ہمیں اچھی طرح دیا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو میں نے وہ کنواں اپنے خالص مال سے خریدا تھا (اور مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا تھا) اور (آج) تم مجھے اس کنویں کے پانی سے روزہ افطار کرنے سے منع کرتے ہو حتّیٰ کہ میں سمندری پانی سے افطار کرنے پر مجبور ہوں۔
سیدنا ابو اسید انصاری کے آزاد کردہ غلام ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ (محاصرہ کے دوران) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جھانک کر دیکھا تو فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں نے رومہ کا میٹھے پانی کا کنواں اپنے مال سے خریدا تھا۔ اور میں نے اپنا ڈول ایک عام مسلمان کی طرح بنایا تھا (سب کے لئے وقف کر دیا تھا) لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر تم مجھے اس کنویں کا میٹھا پانی پینے سے کیوں روکتے ہو حتّیٰ کہ میں سمندری کھا رے پانی سے روزہ افطار کرنے پر مجبور ہوں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا اجراسے ملتا رہتا ہے، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہوں یا نیک اولاد جو اُس کے لئے دعائیں کرے۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”وہ بہترین چیزیں جو انسان اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ تین ہیں، نیک بٹیا جو اُس کے لئے دعائیں کرتا ہے تو اس کی دعائیں پہنچتی ہیں یا صدقہ جاریہ کرجائے تو اس کا اجر اُسے پہنچتا رہے گا۔ یا ایسا مفید علم چھوڑ جائے جس پر لوگ عمل کریں (تو اسے اس کا اجر ملتا رہے گا)۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میری والدہ فوت ہوگئیں ہیں کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں کردو“ میں نے عرض کیا کہ کونسا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی پلانا (یعنی کنواں کھدوا کر وقف کردو)۔“
سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کونسا صدقہ کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی پلانا افضل ہے۔“