سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم مسجد میں تھیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت، صدقہ کرو خواہ اپنے زیورات میں سے کرو۔“ پھر ابن نمیر کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی۔
والدليل على ان الصدقة إذا رجعت إلى المتصدق بها إرثا عن المتصدق عليه جاز له. والفرق بين ما يملكه الرجل من الصدقة إرثا وبين ما يملكه بابتياع او استيهاب، إذ الإرث يملكه الوارث احب ذلك ام كره، ولا يملك المرء ملكا بغير نية، واخبر انه ملك بمعنى من المعاني سوى الميراث.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الصَّدَقَةَ إِذَا رَجَعَتْ إِلَى الْمُتَصَدِّقِ بِهَا إِرْثًا عَنِ الْمُتَصَدَّقِ عَلَيْهِ جَازَ لَهُ. وَالْفَرْقُ بَيْنَ مَا يَمْلِكُهُ الرَّجُلُ مِنَ الصَّدَقَةِ إِرْثًا وَبَيْنَ مَا يَمْلِكُهُ بِابْتِيَاعٍ أَوِ اسْتِيهَابٍ، إِذِ الْإِرْثُ يَمْلِكُهُ الْوَارِثُ أَحَبَّ ذَلِكَ أَمْ كَرِهَ، وَلَا يَمْلِكُ الْمَرْءُ مِلْكًا بِغَيْرِ نِيَّةٍ، وَأَخْبَرَ أَنَّهُ مِلْكٌ بِمَعْنَى مِنَ الْمَعَانِي سِوَى الْمِيرَاثِ.
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کو ایک باغ صدقہ میں دیا۔ (وہ لڑکا فوت ہوا) تو وہ باغ میراث میں واپس اسی شخص کے پاس آگیا۔ تو اُس نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے کہا: ”تیرا ثواب ثابت ہوگیا اور تمھاری ملکیت بھی تمھاری طرف لوٹ آئی۔“
سیدنا عوف بن مالک شجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو کھجوروں کے خوشے لٹکے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک خوشہ خراب اور ردی تھا۔ آپ کے پاس ایک عصا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصا اس خوشے پر مارا (اور کھجوریں گرادیں) اور فرمایا: ”یہ خوشہ صدقہ کرنے والا چاہتا تو اس سے عمدہ صدقہ کرسکتا تھا بیشک اس خوشے کا مالک قیامت کے روزخراب اور ردی کھجویں کھائے گا۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا والوں کو رخصت دی تھی کہ وہ پھل کا اندازہ کرکے ایک وسق، دو وسق، تین اور چار وسق کے بدلے اپنا پھل بیچ دیں۔ اور فرمایا: ”ہر دس وسق کھجوریں توڑنے پر ایک خوشہ مساکین کے لئے مسجد میں رکھا جائیگا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے دارمی سے سنا ہے، قنع اور قِنو کا معنی ایک ہی ہے ”خوشہ“۔
1718. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مساکین کے لئے کھجوروں کا ایک خوشہ مسجد میں رکھنے کا حُکم دینا استحباب اور فضیلت کے لئے ہے، فرض اور وجوبی حُکم نہیں جناب طلحہ بن عبداللہ کی روایت اسی باب کے متعلق ہے
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی تو تم نے اس مال کی برائی اور مصیبت کو اپنے سے دُور کر دیا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی تو تم نے اپنی ذمہ داری اور فرض ادا کر دیا۔ اور جس شخص نے حرام مال جمع کیا پھر اس کا صدقہ کردیا تو اسے اس صدقے کا کوئی اجر نہیں ملے گا اور اس پر اس کا گناہ ہوگا۔“