سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میرا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی طرف صدقہ ہے، میں اس سے دستبردار ہوتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا: ”اپنا کچھ مال رکھ لو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے گیا۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ایک درہم ایک لاکھ درہم پر کیسے سبقت لے گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کے پاس صرف دو درہم تھے تو اُس نے ایک درہم صدقہ کردیا۔ جبکہ دوسرے شخص کے پاس کثیر مال و دولت تھا تو اُس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم صدقہ کیا۔“
1696. اس بات کی دلیل کا بیان کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کم مال والے شخص کے صدقے کو اس وقت افضل قرار دیا ہے جبکہ وہ مال اس کے اہل وعیال کی ضروریات سے زیادہ ہو۔
لا إذا تصدق على الاباعد وترك من يعول جياعا عراة، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امر ببدء من يعول. لَا إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى الْأَبَاعِدِ وَتَرَكَ مَنْ يَعُولُ جِيَاعًا عُرَاةً، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِبَدْءِ مَنْ يَعُولُ.
اس وقت افضل نہیں جب وہ دور کے لوگوں پر صدقہ کرے اور اس کے اپنے اہل و عیال بھوکے ننگے ہوں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کا حُکم دیا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، کونسا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کم مالدار شخص کا تکلیف کے ساتھ صدقہ کرنا افضل ہے۔ اور سب سے پہلے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص محتاج ہو تو وہ سب سے پہلے اپنی جان پر خرچ کرے۔ اگر مال بچ جائے تو اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، اگر مزید مال بچ جائے تو اپنے قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرے، اگر پھر بھی مال زیادہ موجود ہو تو پھر ادھر اُدھر ضرورتمندوں پر خرچ کردے۔“
سیدنا حبشی بن جنادہ سلولی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بقدر کفایت مال کے ہوتے ہوئے مانگا تو بیشک وہ آگ کے انگارے کھاتا ہے۔“ جناب زید بن اخزم کی روایت میں ہے کہ ”جس شخص نے بغیر محتاجی کے مانگا تو بلاشبہ وہ جہنّم کے انگارے کھاتا ہے۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس اوقیہ چاندی کی قیمت (چالیس درھم) موجود ہو اور وہ سوال کرے تو وہ چمٹ اور لپٹ کو مانگنے والا شمار ہوگا۔“
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اس حالت میں مانگا کہ اس کے پاس چالیس درہم موجود ہوں تو وہ چمٹ کر مانگنے والا ہے۔ اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو ریت کھاتا ہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو آپ کو کھانا پیش کیا گیا جس کے ساتھ گوشت نہیں تھا۔ تو آپ نے پوچھا: ”کیا میں نے تمھاری ہنڈیا نہیں دیکھی تھی؟ (جس میں گوشت پک رہا تھا)“ میں نے عرض کیا کہ با لکل دیکھی تھی لیکن وہ گوشت تو سیدنا بریرہ رضی اللہ عنہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کے لئے صدقہ ہے۔ اور ہمارے لئے بریرہ کی طرف سے ہدیہ ہے (اس لئے لاؤ۔ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں)۔“