جناب عبیداللہ بن عبداللہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم مانگا تو آپ نے انہیں عطا کر دیا۔ تو سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے اُسے آزاد کردیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم یہ غلام اپنے ننھیال کو دے دیتی تو یہ تمہارے لئے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہوتا۔“ جناب محمد بن حازم سے مراد ابومعاویہ الضریر ہے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاتھ تین قسم کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بلند و برتر ہے۔ اس کے بعد صدقہ دینے والے کا ہاتھ ہے۔ اور سوال کرنے والے کا ہاتھ قیامت تک نیچے ہے لہذا تم حسب طاقت سوال کرنے سے بچو “ جناب ابو الاحوص کی روایت میں ہے کہ جو اس کے بعد ہے اور کہا، لہٰذا تم مانگنے سے بچو حتّیٰ الوسع بچو۔ یہ جناب بندار کی حدیث کے الفاظ ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بہترین صدقہ وہ ہے جس سے خوشحالی اور مالداری باقی رہے اور اوپر والا ہاتھ (صدقہ کرنے والا) نیچے والے ہاتھ (صدقہ لینے والے) سے بہتر ہے اور صدقہ دینا اُن لوگوں سے شروع کرجن کا خرچہ تیرے ذمے ہے۔ تمھاری بیوی کہتی ہے کہ مجھ پرخرچ کرو یا مجھے طلاق دے دو۔ تمھارا غلام بھی کہتا ہے کہ مجھ پر خرچ کرو یا مجھے بیچ دو اور تمھارا بیٹا کہتا ہے کہ مجھے کس کے سپرد کرتے ہو؟“
وإعطاء الرب- عز وجل- المتصدق الخلف، قال الله- عز وجل-: [وما انفقتم من شيء فهو يخلفه] [سبا: 39] وَإِعْطَاءِ الرَّبِّ- عَزَّ وَجَلَّ- الْمُتَصَدِّقَ الْخُلْفَ، قَالَ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ-: [وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ] [سَبَأٍ: 39]
ارشاد باری تعالی ہے: «وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ» [ سورة سبإ: 39 ]”اور تم جو چیز بھی خرچ کروگے وہ تمھیں اس کا عوض دے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کرنے والے اور بخیل شخص کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنھوں نے لوہے کی دو زرہیں پہن رکھی ہوں جو اُن کے سینے سے حلق تک ہوں۔ پھر جب صدقہ کرنے والا اور اللہ کی راہ میں دینے والا خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ خوب کشادہ اور وسیع ہوجاتی ہے حتّیٰ کہ اس کی انگلیاں بھی اس میں چھپ جاتی ہیں اور وہ قدموں کے نشان مٹا دیتی ہے (یعنی پاؤں کے نیچے تک پھیل جاتی ہے) اور جب بخیل شخص صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کی زرہ سکڑ جاتی ہے حتّیٰ کہ ہر حلقہ اپنی جگہ خوب جم جاتا ہے اور اس کی گردن یا گلے کے ساتھ چمٹ جاتی ہے۔“ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (سمجھا نے کے لئے) اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں کہ وہ بخیل زرہ کو وسیع کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ وسیع نہیں ہوتی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔ اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے بندے کی عزت میں اضافہ ہی فرماتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے لئے عاجزی و انکساری اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بلند مقام و مرتبہ عطا کردیتا ہے۔“ جناب بندار اور ابوموسیٰ کی روایت میں ہے کہ اور جو شخص کوئی ظلم معاف کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسکی عزت میں اضافہ کر دیتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی حالت میں کیا جائے۔ اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے سے (صدقہ کرنا) شروع کرو۔“
سیدنا مالک بن نضالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاتھ تین قسم کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہایت بلند و بالا ہے۔ اس کے نیچے صدقہ کرنے والے کا ہاتھ ہے اور ما نگنے والے کا ہاتھ سب سے نیچے ہے۔ لہٰذا جو مال (اہل وعیال پر خرچ کرنے کے بعد) بچ جائے وہ صدقہ کردو اور اپنے نفس کے پیچھے نہ لگو (جب وہ تمہیں صدقہ کرنے سے روکے)۔“
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم اراد بقوله: " عن ظهر غنى " عما يغنيه ومن يعول، لا عن كثرة الرجل.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: " عَنْ ظَهْرِ غِنًى " عَمَّا يُغْنِيهِ وَمَنْ يَعُولُ، لَا عَنْ كَثْرَةِ الرَّجُلِ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سونے کا ایک انڈا لیکرحاضر ہوا جو اسے کسی کان سے ملا تھا۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے کہ انڈے کے برابر سونے کا ایک ٹکڑا لیکر حاضر ہوا جو اسے کسی کان سے ملا تھا۔ تو اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ مجھ سے یہ سونا صدقے کے لئے قبول فرمالیں، اللہ کی قسم، میں اس کے علاوہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کرلیا پھر وہ آپ کی دائیں جانب سے آیا اور پہلے کی طرح بات کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے مُنہ موڑ لیا۔ پھر وہ آپ کی بائیں طرف سے آیا اور پہلے جیسی گزارش کی تو آپ نے پھر اس سے مُنہ موڑلیا پھر چوتھی بار اُس کے عرض کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لاؤ“ آپ نے اسے پکڑ کر زور سے پھینک دیا اگر وہ اس کے سر پر لگتا تو اس کا سر پھٹ جاتا، اور ٹانگ پر لگتا تو وہ زخمی ہو جاتی، پھر فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنا سارا مال لیکر صدقہ کرنے آجاتا ہے، پھر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھرتا ہے بیشک صدقہ تو وہ ہے جو مالداری باقی رکھے۔“ یہ روایت جناب ابن رافع کی ہے۔ جناب الدورقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اپنا مال واپس لے لو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔