سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص ہمارا عامل ہو تو وہ (اس مال ذکوٰۃ سے) نکا ح کرلے اور اگر اس کے پاس خادم نہ ہو تو خادم لے لے، اور جس کے پاس گھر نہ ہو تو وہ گھر لے لے۔“ جناب معافی کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ان چیزوں کے سوا کوئی چیزلی تو وہ خائن ہے یا چور ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے لئے جو کچھ مانگا جاتا آپ عطا کر دیتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے مال مانگا تو آپ نے اسے زکوٰۃ کی بکریوں میں سے دو پہاڑوں کے درمیان چرنے والی بہت ساری بکریاں عطا کیں تو وہ شخص (بکریاں سمیٹ کر) اپنی قوم کے پاس پہنچا تو کہنے لگا کہ اے میری قوم کے لوگو، مسلمان ہو جاؤ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عطا دیتے ہیں کہ انہیں فقر و فاقہ کا ڈر ہی نہیں ہوتا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (اور کچھ عطا کرنے کا سوال کیا) تو آپ نے اسے دو پہاڑیوں کے درمیان موجود (تمام) بکریاں دینے کا حُکم فرمایا وہ شخص اپنی قوم کے پاس واپس پہنچا تو کہنے لگا (لوگو) مسلمان ہوجاؤ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اس شخص کی طرح (دل کھول کر) عطا کرتے ہیں جسے فقر و فاقہ کا ڈر نہیں ہوتا۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا جسے ابھی تک مٹی سے الگ بھی نہیں کیا گیا تھا (کان سے جیسا ملا تھا ویسا ہی تھا) تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سونا چارافراد میں تقسیم کردیا (وہ افراد یہ ہیں) اقرع بن حابس الحنظلی، عیینہ بن حصن المرادی، علقمہ بن علاثہ الجعفری اور عامر بن طفیل یا زید الطائی۔ (راوی کو ان دو میں شک ہے کہ چوتھا کون تھا)۔ یہ بات آپ کے بعض انصاری اور دیگر صحابہ کرام کو ناگوار گزری۔ آپ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے حالانکہ میں آسمان والے رب کا بھی امین ہوں۔ میرے پاس آسمان والے کی وحی صبح وشام آتی ہے۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زکوٰۃ کا مال صرف پانچ لوگوں کے لئے حلال ہے۔ زکوٰۃ وصول کرنے والا عامل، دوسرا وہ شخص جو زکوٰۃ کا مال اپنے سے خرید لے، تیسرا وہ آدمی جو مقروض ہو، چھوتھا وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے اور پانچواں وہ مسکین جسے زکوٰۃ دی گئی تو اُس نے اس میں سے کسی غنی شخص کو ہدیہ دے دیا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میری کتاب میں ابن عسکر سے یہ الفاظ موجود نہیں ”یا مقروض شخص“
وإن كان غنيا هو الغارم في الحمالة " والدليل على انه يعطى قدر ما يؤدي الحمالة لا اكثروَإِنْ كَانَ غَنِيًّا هُوَ الْغَارِمُ فِي الْحِمَالَةِ " وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّهُ يُعْطَى قَدْرَ مَا يُؤَدِّي الْحِمَالَةُ لَا أَكْثَرَ
وہ ایسا مقروض ہے جس نے کوئی خون بہایا تاوان اپنے ذمے لیا ہو، اگرچہ وہ خود مالدار ہی ہو۔ اسے صرف اتنا مال ہی دیا جائے گا جس سے اس کا تاوان وغیرہ ادا ہوجائے۔ اس سے زیادہ نہیں دیا جائے گا
سیدنا قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک خون بہا، یا تاوان اپنے ذمے لیا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سلسلے میں تعاون لینے کے لئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تمہاری طرف سے یہ رقم ادا کر دیںگے اور اس کی ادائیگی زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے کریںگے۔“ پھر فرمایا: ”اے قبیصہ، سوال کرنا حرام ہے سوائے تین اشخاص کے۔ ایک وہ شخص جس نے کوئی قرض یا تاوان اپنے ذمے لے لیا ہو تو اُس کے لئے مانگنا درست ہے حتّیٰ کہ اسکی ادائیگی ہو جائے پھر مانگنے سے رُک جائے۔ دوسرا وہ شخص جسے کسی آفت نے آ لیا ہو اور اُس کا مال برباد ہوگیا ہو تو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے حتّیٰ کہ اُس کی گزران سیدھی ہو جائے پھر مانگنا چھوژ دے۔ تیسرا وہ شخص جسے آفت و فاقہ نے لاچار کردیا ہو، حتّیٰ کہ اسکی قوم کے تین افراد اس کے بارے میں بتائیں یا گواہی دیں کہ اس کے لئے سوال کرنا حلال ہوچکا ہے۔ (پھر وہ مانگ سکتا ہے) حتّیٰ کہ وہ گزارے کے لئے مال حاصل کرلے پھر مانگنے سے باز آجائے، اس کے سوا مانگنا حرام ہے۔“ جناب بسطامی کی روایت میں ہے کہ ہم یہ قرض زکوٰۃ سے ادا کریںگے۔
سیدہ ام معقل رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی تیاری کی اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ حج کی تیاری کرنے کا حُکم دیا۔ سیدہ ام معقل رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے روانہ ہو گئے اور صحابہ کرام بھی آپ کے ساتھ حج کے لئے چلے گئے۔ پھر جب آپ واپس تشریف لائے تو میں آپ کے پاس حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام معقل، تم ہمارے ساتھ ہمارے اس حج میں کیوں نہیں گئی؟ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میں نے تیاری کرلی تھی پھر ہمیں بیماری نے دبوچ لیا جس میں سیدنا ابومعقل رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے اور میں بھی بیمار ہوگئی۔ ہمارے پاس ایک اونٹ تھا ہم اس پر حج کرنے کے لئے جانا چاہتے تھے مگر سیدنا ابومعقل رضی اللہ عنہ نے اسے اللہ کی راہ میں وقف کرنے کی وصیت کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم اس اونٹ پر سوار ہوکر کیوں نہیں گئی، حج بھی تو فی سبیل اللہ میں شامل ہے۔“
سیدنا ابولاس خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حج کے لئے زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے چند کمزور اونٹ سواری کے لئے دیئے تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول، ہمارے خیال میں یہ اونٹ سواری کے قابل نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اونٹ کی کوہان پر ایک شیطان ہوتا ہے لہٰذا جب تم سوار ہونے لگو تو بسم اللہ پڑھ لو جیسا کہ اُس نے تمہیں حُکم دیا ہے۔ پھر تم ان سے اپنی خوب خدمت لو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی سواری عطا کرتا ہے (اور ان جانوروں کو تمہارا مطیع کرتا ہے)۔“
سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے عورتوں سے جماع کرنے کی جتنی قوت ملی تھی کسی اور کو حاصل نہ تھی۔ جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا، اس ڈرسے کہیں رمضان المبارک کی کسی رات اس سے ہمبستری نہ کرنے لگ جاؤں، پھر اس کام میں مسلسل لگا رہوں حتّیٰ کہ صبح ہوجائے اور میں فارغ ہی نہ ہوسکوں۔ پھر اس درمیان کہ ایک رات وہ میری خدمت کررہی تھی جب اس کے جسم کا کوئی حصّہ میرے سامنے کھل گیا (تو میں خود پر قابو نہ پاسکا، اس لئے) کود کراس پر سوار ہوگیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس گیا اور اپنی کار گزاری انہیں بتائی۔ میں نے اُن سے گزارش کی کہ تم میرے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنی خبر بتا سکوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اللہ کی قسم ہم تمہارے ساتھ نہیں جائیںگے ہم تو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ہمارے بارے میں قرآن نہ نازل ہو جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس کی عار و شرمندگی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ اس لئے تم خود ہی جاؤ اور جو تمہارے جی میں آئے کر گزرو۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی کارگزاری بتادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا واقعی تم نے ایسا ہی کیا ہے؟“ میں نے عرض کی کہ جی ہاں، ایسے ہی کیا ہے اور میں اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں آپ مجھ پر اللہ کا حُکم نافذ کریں، میں بڑے صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے سزا برداشت کروںگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو۔“ میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مارکر کہا کہ جس ذات نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے، میں اس گردن کے سوا کسی کا مالک نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میں نے اس غلطی کا ارتکاب رمضان ہی میں تو کیا ہے۔ (مزید روزے کیسے رکھ سکوںگا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مساکین کا کھانا دو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ہم نے آج رات بھوکے گزاری ہے ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ بنی زریق کی زکوٰۃ کے تحصیلدار کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ بنی زریق کی زکوٰۃ تمہیں دے دے۔ اس میں سے ایک وسق ساٹھ مساکین کو کھلادو اور باقی سارامال اپنے گھر والوں پر خرچ کرلو۔“ پھر میں اپنی قوم کے پاس آیا تو میں نے کہا کہ میں نے تمہارے اندر تنگ دلی اور تنگ نظری پائی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس کے بعد دورقی کی روایت کو میں سمجھ نہیں سکا۔ دیگر راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے تمہارے پاس تنگ دلی اور بری رائے کو پایا ہے جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فراخی اور برکت پائی ہے۔ آپ نے مجھے تمہاری زکوٰۃ وصول کرنے کا حُکم دیا ہے لہٰذا تم وہ میرے حوالے کردو۔ فرماتے ہیں کہ تو اُنہوں نے اپنی زکوٰۃ میرے حوالے کردی۔ بعض راویوں نے عشاء (رات کا کھانا) کی بجائے حساء (شوربہ) کا لفظ روایت کیا ہے۔