سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے عورتوں سے جماع کرنے کی جتنی قوت ملی تھی کسی اور کو حاصل نہ تھی۔ جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا، اس ڈرسے کہیں رمضان المبارک کی کسی رات اس سے ہمبستری نہ کرنے لگ جاؤں، پھر اس کام میں مسلسل لگا رہوں حتّیٰ کہ صبح ہوجائے اور میں فارغ ہی نہ ہوسکوں۔ پھر اس درمیان کہ ایک رات وہ میری خدمت کررہی تھی جب اس کے جسم کا کوئی حصّہ میرے سامنے کھل گیا (تو میں خود پر قابو نہ پاسکا، اس لئے) کود کراس پر سوار ہوگیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس گیا اور اپنی کار گزاری انہیں بتائی۔ میں نے اُن سے گزارش کی کہ تم میرے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنی خبر بتا سکوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اللہ کی قسم ہم تمہارے ساتھ نہیں جائیںگے ہم تو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ہمارے بارے میں قرآن نہ نازل ہو جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس کی عار و شرمندگی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ اس لئے تم خود ہی جاؤ اور جو تمہارے جی میں آئے کر گزرو۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی کارگزاری بتادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا واقعی تم نے ایسا ہی کیا ہے؟“ میں نے عرض کی کہ جی ہاں، ایسے ہی کیا ہے اور میں اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں آپ مجھ پر اللہ کا حُکم نافذ کریں، میں بڑے صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے سزا برداشت کروںگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو۔“ میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مارکر کہا کہ جس ذات نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے، میں اس گردن کے سوا کسی کا مالک نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میں نے اس غلطی کا ارتکاب رمضان ہی میں تو کیا ہے۔ (مزید روزے کیسے رکھ سکوںگا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مساکین کا کھانا دو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ہم نے آج رات بھوکے گزاری ہے ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ بنی زریق کی زکوٰۃ کے تحصیلدار کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ بنی زریق کی زکوٰۃ تمہیں دے دے۔ اس میں سے ایک وسق ساٹھ مساکین کو کھلادو اور باقی سارامال اپنے گھر والوں پر خرچ کرلو۔“ پھر میں اپنی قوم کے پاس آیا تو میں نے کہا کہ میں نے تمہارے اندر تنگ دلی اور تنگ نظری پائی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس کے بعد دورقی کی روایت کو میں سمجھ نہیں سکا۔ دیگر راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے تمہارے پاس تنگ دلی اور بری رائے کو پایا ہے جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فراخی اور برکت پائی ہے۔ آپ نے مجھے تمہاری زکوٰۃ وصول کرنے کا حُکم دیا ہے لہٰذا تم وہ میرے حوالے کردو۔ فرماتے ہیں کہ تو اُنہوں نے اپنی زکوٰۃ میرے حوالے کردی۔ بعض راویوں نے عشاء (رات کا کھانا) کی بجائے حساء (شوربہ) کا لفظ روایت کیا ہے۔