سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”چونگی وصول کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔“ جناب یزید فرماتے ہیں کہ ”صاحب مکس سے“(شہروں میں داخلے کا) ٹیکس وصول کرنے والا مراد ہے۔
1617. اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکورہ وعید کا تعلق اس تحصِل دار کے ساتھ ہے جو وصول میں عدل و انصاف کی بجاںے ظلم و زیادتی کرتا ہے
وفضل السعاية على الصدقة إذا عدل الساعي فيما يتولى منها، وتشبيهه بالغازي في سبيل الله وَفَضْلِ السِّعَايَةِ عَلَى الصَّدَقَةِ إِذَا عَدَلَ السَّاعِي فِيمَا يَتَوَلَّى مِنْهَا، وَتَشْبِيهِهِ بِالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ
اور اس تحصِل دار کی فضیلت کا بیان جو اپنے عمل میں عدل کرتا ہے اور اسے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کے ساتھ تشبیہ دینے کا بیان۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدل انصاف کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے حتّیٰ کہ وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کا ایمان درست نہیں جو امانتدار نہیں، اور زکوٰۃ کی وصولی میں ظلم و زیادتی کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔“
سیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں اس اثناء میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے پاس آپ کے کچھ صحابہ کرام بھی موجود تھے اور باہمی گفتگو کر رہے تھے جب ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اگر کھجوروں کی اتنی اتنی مقدار ہو تو ان میں کتنی زکوٰۃ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اتنی مقدار زکوٰۃ فرض ہے۔“ اُس شخص نے کہا کہ بیشک فلاں عامل نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور اس نے مجھ سے اتنی مقدار زکوٰۃ وصول کی ہے اور ایک صاع زائد لے لیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارا تحصیلدار تم پر اس سے بھی زیادہ ظلم کریگا؟“ پھر لوگ باتوں میں مشغول ہوگئے اور انہیں اس بات نے حیران و پریشان کردیا حتّیٰ کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اگر کوئی شخص (بستی سے دور) اپنے اونٹوں، جانوروں اور کھیتی کے پاس ہو اور وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دے پھر تحصیلدار اس پر ظلم کرے تو وہ کیا کرے جبکہ وہ آپ سے بہت دور رہتا ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کے لئے بخوشی زکوٰۃ ادا کی اور اپنے مال میں سے کوئی چیز (تحصیلدار سے) غائب نہ کی، اور نماز قائم کی، پھر اس نے زکوٰۃ ادا کردی اور تحصیلدار نے اس پر ظلم کیا تو اس نے اپنے ہتھیار اُٹھا کر لڑائی لڑی اور مارا گیا تو وہ شہید ہے۔“
حدثنا عيسى بن إبراهيم الغافقي ، حدثنا ابن وهب ، عن ابن جريج ، عن رجل من آل ابي رافع، اخبره , عن الفضل بن عبيد الله، عن ابي رافع ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى العصر ذهب إلى بني عبد الاشهل، فتحدث عندهم حتى يتحدث للمغرب، قال ابو رافع: فبينما النبي صلى الله عليه وسلم مسرعا إلى المغرب مررنا بالبقيع، فقال:" اف لك، اف لك"، فكبر ذلك في ذرعي، فاستاخرت وظننت انه يريدني، فقال:" ما لك؟ امش"، فقلت: احدثت حدثا، قال:" وما لك؟" قلت: اففت لي، قال:" لا، ولكن هذا فلان بعثته ساعيا على بني فلان فغل نمرة، فدرع على مثلها من النار" ، قال ابو بكر: الغلول الذي ياخذ من الغنيمة على معنى السرقةحَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَافِقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ أَبِي رَافِعٍ، أَخْبَرَهُ , عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَبْدِ الأَشْهَلِ، فَتَحَدَّثَ عِنْدَهُمْ حَتَّى يَتَحَدَّثَ لِلْمَغْرِبِ، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَبَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا إِلَى الْمَغْرِبِ مَرَرْنَا بِالْبَقِيعِ، فَقَالَ:" أُفٍّ لَكَ، أُفٍّ لَكَ"، فَكَبُرَ ذَلِكَ فِي ذَرْعِي، فَاسْتَأْخَرْتُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُنِي، فَقَالَ:" مَا لَكَ؟ امْشِ"، فَقُلْتُ: أَحْدَثْتَ حَدَثًا، قَالَ:" وَمَا لَكَ؟" قُلْتُ: أَفَّفْتَ لِي، قَالَ:" لا، وَلَكِنَّ هَذَا فُلانٌ بَعَثْتُهُ سَاعِيًا عَلَى بَنِي فُلانٍ فَغَلَّ نَمِرَةً، فَدُرِّعَ عَلَى مِثْلِهَا مِنَ النَّارِ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الْغُلُولُ الَّذِي يَأْخُذُ مِنَ الْغَنِيمَةِ عَلَى مَعْنَى السَّرِقَةِ
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز ادا کرلیتے تو بنی عبدالاشہل قبیلے میں تشریف لے جاتے اور ان کے پاس مغرب تک بات چیت کرتے۔ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ پھر اس درمیان میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کے لئے جلدی جلدی آرہے تھے تو ہم بقیع کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس ہے۔ تجھ پر افسوس ہے۔“ تو مجھ پر یہ کلمات بڑے گراں گزرے اور میں پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے خیال کیا کہ آپ نے یہ کلمات میرے بارے میں فرمائے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا ہے؟ چلو۔“ میں نے عرض کی کہ میرے دل میں ایک نئی بات آئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا ہے؟“ میں نے عرض کی کہ آپ نے مجھے اف اف کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن (میں نے تو) اس فلاں شخص پر افسوس کیا ہے، میں نے اسے فلاں قبیلے کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا تو اس نے ایک چادر خیانت کرلی تھی تو وہ جہنّم کی آگ بن کر اس پر لپیٹ دی گئی ہے۔“ امام بوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ غلول کا معنی ہے، غنیمت کے مال میں سے کوئی چیز چرالینا۔
سیدنا عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ہمارا کوئی کام سر انجام دیا پھر اس نے اس میں سے ایک سوئی یا اس سے کمتر کوئی چیز چھپائی تو وہ خیانت ہے جسے وہ قیامت کے دن لیکر حاضر ہوگا۔“ یہ بات سن کر ایک سیاہ رنگ کے انصاری، گویا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں، نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ مجھ سے اپنی ذمہ داری واپس لے لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیوں؟“ اُس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو ایسے ایسے فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میں نے وہ بات بیان کی ہے کہ ہم جسے کوئی ذمہ داری سونپیں تو وہ ہر تھوڑا یا زیادہ مال لیکر حاضر ہو پھر اُسے جو دیا جائے لے لے اور جس سے منع کردیا جائے اس سے رُک جائے۔“
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازد قبیلے کے ایک شخص جسے ابن لتبیہ کہا جاتا ہے، کو زکوٰۃ کی وصولی پر مقررکیا۔ پھر جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا کہ یہ تمہاری زکوٰۃ ہے اور یہ میرا ہدیہ ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”اس عامل کا کیا حال ہے جسے ہم بھیجتے ہیں، وہ واپس آتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ مال آپ کا ہے اور یہ مال مجھے ہدیہ دیا گیا ہے تو وہ شخص اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتا پھر وہ دیکھے کہ اسے ہدیہ ملتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، تم میں سے کوئی بھی ایسا مال لائیگا تو قیامت والے دن وہ شخص اس مال کو اپنی گردن پر رکھے لائیگا۔ اگر اونٹ ہوا تو وہ بلبلا رہا ہوگا اور اگرگائے ہوئی تو وہ ڈکار رہی ہوگی اور اگر بیل ہوا تو وہ آواز نکال رہا ہوگا۔ بعض دفعہ راوی نے ثَوَارٌ کی جگہ تَيْعَرُ کا لفظ بولا (معنی ایک ہی ہے کہ آواز نکالنا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے حتّیٰ کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ، کیا میں نے تیرا حُکم پہنچا دیا۔“ آپ نے یہ کلمات تین بارفرمائے۔
1622. زکوٰۃ کا تحصیل دار جو خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس مال کو کیسے لیکر حاضر ہوگا، اس کی کیفیت کا بیان اور امام کا تحصیلدار کا محاسبہ کرنے کا حُکم دینے کا بیان جبکہ وہ مال لیکر واپس آئے
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلى الله عليه وسلم اللہ نے بنوسلیم کی زکوۃ وصول کرنے کے لئے ازد قبیلے کے ایک شخص کو عامل بنایا جسے ابنِ لتبیہ کہا جاتا ہے۔ پھر جب وہ مال لیکر حاضر ہوا تو آپ نے اُس کا محاسبہ کیا تو اُس نے کہا کہ یہ آپ کا حصّہ ہے اور یہ (میرا) ہدیہ ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ گئے حتّیٰ کہ تیرا ہدیہ تیرے پاس آجاتا اگر تم سچّے ہو۔“ پھر ہمیں خطبہ ارشاد فرماتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”اما بعد، میں تم میں سے کسی شخص کو کسی کام کا عامل بناتا ہوں، ان کاموں میں سے کسی کام کا جن کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے تو وہ واپس آتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ وہ شخص اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھ گیا حتّیٰ کہ اس کا ہدیہ اس کے پاس آجاتا، اگر وہ سچا ہے۔ اللہ کی قسم، تم میں سے جو شخص بھی بغیر حق کے کوئی چیز لیگا تو وہ قیامت والے دن اس چیز کو اُٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریگا تو میں تم میں سے کسی شخص کو نہ پہچانوں کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اُس نے اونٹ کو اُٹھایا ہو اور وہ بلبلا رہا ہو، یا اُس نے گائے اُٹھا رکھی ہو جو چلّا رہی ہو یا اسکی گردن پر بکری سوار ہو جو ممیا رہی ہو۔“ پھر آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے حتّیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آگئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ، کیا میں نے تیرا حُکم پہنچا دیا۔“ میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا اور میرے کانوں نے یہ الفاظ سنے۔