سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی ایک شخص کا خزانہ (جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی تھی وہ) قیامت کے دن دو سیاہ نقطوں والا گنجا اژدھا بن کر خزانے والے کا پیچھا کریگا جبکہ خزانے والا اس سے پناہ مانگے گا۔ پھر وہ مسلسل اُس کے پیچھے لگا رہیگا اور وہ اس سے بھاگتا پھرے گا حتّیٰ کہ سانپ اُس کی انگلی چبا لیگا۔“ جناب ربیع کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ”اور وہ سانپ سے بھاگتا پھرے گا۔“ اور یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ”تم میں سے کسی ایک کا خزانہ۔“
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے پیچھے خزانہ چھوڑآ (جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی تھی) تو وہ قیامت کے دن اُس کے لئے گنجا سانپ بن جائیگا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوںگے۔ وہ سانپ اُس کا پیچھا کریگا تو وہ پوچھے گا، تیری بربادی ہو تُو کون ہے؟ تو وہ جواب دیگا کہ میں تیرا وہ خزانہ ہوں جو تُو (مرنے کے بعد) اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا تو وہ مسلسل اس کا پیچھا کرتا رہیگا حتّیٰ کہ اُس کا ہاتھ منہ میں ڈال کر چبالے گا پھر اس کے بعد اُس کا سارا جسم چبا ڈالے گا۔“
والدليل على ان الكنز هو المال الذي لا يؤدى زكاته، لا المال المدفون الذي يؤدى زكاته وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَنْزَ هُوَ الْمَالُ الَّذِي لَا يُؤَدَّى زَكَاتُهُ، لَا الْمَالُ الْمَدْفُونُ الَّذِي يُؤَدَّى زَكَاتُهُ
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص بھی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اُس کے لئے ایک سانپ بنایا جائیگا جو قیامت والے دن اُس کی گردن میں طوق بن جائیگا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق میں قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی «سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» [ سورة آل عمران: 180 ]”جس مال میں انہوں نے کنجوسی کی، قیامت کے دن اُسی کے اُنہیں طوق پہنائے جائیںگے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ شخص جو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اُس کے لئے (اُس کا مال) گنجے سانپ کی شکل اختیار کر لیگا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوںگے۔ وہ اُسے چمٹ جائیگا یا اُس کی گردن کا طوق بن جائیگا اور کہے گا کہ ”میں تمہارا خزانہ ہوں۔“ یہ روایت جناب احمد بن سنان کی ہے اور جناب زعفرانی انہیں کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن دینار نے بتایا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ”تو وہ اُس کی گردن کا طوق بن جائیگا یا اُس سے لپٹ جائیگا۔“
وفيه ما دل على ان الوعيد بالعذاب للمكتنز ولمن لا يؤدي زكاة ماله دون من يؤديها وإن كان المال مدفوناوَفِيهِ مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ الْوَعِيدَ بِالْعَذَابِ لِلْمُكْتَنِزِ وَلِمَنْ لَا يُؤَدِّي زَكَاةَ مَالِهِ دُونَ مَنْ يُؤَدِّيهَا وَإِنْ كَانَ الْمَالُ مَدْفُونًا
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی روایت میں ہے کہ ”کیا زکوٰۃ کے علاوہ مجھ پر کوئی صدقہ واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔ مگر یہ کہ تم نفلی صد قہ کرو۔“ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ”ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ جب میں اُس پر عمل پیرا ہوجاؤں تو جنّت میں داخل ہوجاؤں۔ تو اس روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”تم فرض زکٰوۃ ادا کرنا۔“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں فرمایا: ”جس شخص کو کوئی جنّتی شخص دیکھنا پسند ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔“ میں یہ دو روایات کتاب کے گزشتہ صفحات میں لکھوا چکا ہوں اور سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”نماز پنجگانہ ادا کرو۔ اور اپنے مہینے (رمضان المبارک) کے روزے رکھو اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے امیر کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنّت میں داخل ہو جاؤ گے۔“
1567. اس بات کی ایک اور دلیل کا بیان کہ مال جمع کرنے والے کے لئے وعید اس شخص کے بارے میں ہے جو اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا زکوۃ ادا کرنے والے کے لئے وعید نہیں ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی تو تم نے اس کی برائی اپنے سے دُور کردی۔“
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔
1569. اس بات کا بیان کہ زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت حبشہ سے پہلے ہوئی تھی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکّہ مکرّمہ میں مقیم تھے
سیدہ ام سلمہ بنت ابی امیہ بن مغیرہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ہم (ہجرت کرکے) سر زمین حبشہ پہنچے تو ہم نے اس کے نواح میں رہائش اختیار کی۔ جب نجاشی آیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی سے گفتگو کی تھی۔ انہوں نے نجاشی سے کہا کہ اے بادشاہ، ہم ایک جاہل قوم تھے، ہم بتوں کی پوجا کرتے اور مردار کھاتے تھے۔ بے حیائی کے کام کرتے تھے، رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات توڑتے تھے۔ ہمسائیوں پر ظلم کرتے تھے، اور ہم میں سے طاقتور شخص کمزور کو کھا جاتا تھا ہم انہی حالات میں جی رہے تھے حتّیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس ایسا رسول بھیجا جس کا نسب نامہ، اس کی صداقت وامانت اور پاکدامنی وعفت کو ہم خوب جانتے تھے تو اُس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی کہ ہم اُسی کی عبادت کریں، اور ہم ان پتھروں اور بتوں کی پوجا چھوڑ دیں جب کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پوجا کیا کرتے تھے۔ اُس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، ہمسائے سے نیک سلوک کرنے، حرام خوری اور قتل و غارت گری سے ُرکنے کا حُکم دیا اور اُس نے ہمیں بے حیائی کے کاموں، جھوٹی باتوں، یتیم کا مال کھانے، پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حُکم دیا کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور اس نے ہمیں نماز، زکوٰۃ اور روزوں کا حُکم دیا۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، تو سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے نجاشی کو اسلامی تعلیمات و ہدایات بتائیں تو ہم نے ان کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لے آئے اور ہم نے ان تعلیمات میں ان کی اتباع کی جو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے۔ لہٰذا ہم نے ایک اللہ کی عبادت کی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنایا اور ہم نے ان چیزوں کو اپنے لئے حرام کرلیا جو ہم پر حرام کی گئی تھیں اور جو چیزیں حلال کی گئیں اُنہیں اپنے لئے حلال کرلیا۔ پھر باقی حدیث بیان کی۔