سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے بارے میں فرمایا: ”یہ ایک خوشگوار رات ہے، نہ گرم، نہ سرد اس کی صبح سورج سرخ اور کمزور ہوتا ہے۔“
حدثنا احمد بن عبدة ، اخبرنا حماد يعني ابن زيد ، عن عاصم ، عن زر ، قال: قلت لابي بن كعب اخبرني عن ليلة القدر ؛ فإن صاحبنا يعني ابن مسعود سئل عنها، فقال: من يقم الحول يصبها. قال:" رحم الله ابا عبد الرحمن، لقد علم انها في رمضان، ولكنه كره ان يتكلوا، او احب ان لا يتكلوا. والله إنها لفي رمضان ليلة سبع وعشرين، لا يستثني". قال: قلت: ابا المنذر، انى علمت ذلك؟ قال: بالآية التي اخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: قلت لزر: ما الآية؟ قال: " تطلع الشمس صبيحة تلك الليلة ليس لها شعاع مثل الطست حتى ترتفع" حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ؛ فَإِنَّ صَاحِبَنَا يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ سُئِلَ عَنْهَا، فَقَالَ: مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْهَا. قَالَ:" رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَلَكِنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَتَّكِلُوا، أَوْ أَحَبَّ أَنْ لا يَتَّكِلُوا. وَاللَّهِ إِنَّهَا لَفِي رَمَضَانَ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، لا يَسْتَثْنِي". قَالَ: قُلْتُ: أَبَا الْمُنْذِرِ، أَنَّى عَلِمْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: بِالآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: قُلْتُ لِزِرٍّ: مَا الآيَةُ؟ قَالَ: " تَطْلُعُ الشَّمْسُ صَبِيحَةَ تِلْكَ اللَّيْلَةِ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ مِثْلَ الطَّسْتِ حَتَّى تَرْتَفِعَ"
حضرت زرّ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیں، کیونکہ ہمارے ساتھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ جو شخص سارا قیام کرے وہ شب قدر پالے گا۔ تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمان پر رحم فرمائے۔ یقیناً انہیں علم ہے کہ شب قدر رمضان المبارک میں ہے لیکن اُنہوں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ لوگ بھروسہ کرلیں (اور عبادت میں محنت چھوڑ دیں) یا اُنہوں نے پسند کیا ہے کہ لوگ بھروسہ نہ کریں۔ اللہ کی قسم، شب قدر رمضان المبارک میں ستائیسویں رات ہے، اُنہوں نے اس میں استثنا، نہیں کیا (بلکہ قسم کے ساتھ ستا ئیسویں رات قرار دی) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، ابومنذر یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اس نشانی سے معلوم ہوئی جو نشانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی تھی۔ جناب عاصم کہتے ہیں کہ میں نے زرّ رحمه الله سے کہا کہ وہ نشانی کیا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ شب قدر کی صبح سورج تھال کی مانند طلوع ہوگا، بلند ہونے تک اس کی شعاعیں نہیں ہوں گی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر ستائیسویں یا اُنتیسویں رات ہے اور اس رات میں فرشتے کنکریوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے عشاء کی نماز رمضان المبارک میں باجماعت ادا کی تو اُس نے شب قدر کو پالیا۔“
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت ابوسلمہ کی سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ”بیشک مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر مجھے بھلا دی گئی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شب قدر (خواب میں) دکھائی گئی پھر مجھے میرے گھر والوں نے بیدار کر دیا تو میں وہ بھول گیا۔ لہٰذا تم اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔“
1515. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امید اور خیال کا بیان کہ شب قدر کا علم اُٹھایا جانا، اُن کی اُمّت کو اطلاع ملنے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ شب قدر کا حاصل کرنے کی طمع کے ساتھ ایک رات کی بجائے کئی راتیں عبادت میں محنت و کوشش کرنا افضل و اعلیٰ ہے
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شبِ قدر کی خبر دینے کے لئے گھر سے نکلے تو دو مسلمان شخص جھگڑرہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں تمہیں شب قدر کی خبر دینے کے لئے گھر سے نکلا تھا تو فلاں فلاں شخص جھگڑ رہے تھے تو شب قدر کی معرفت اُٹھالی گئی اور امید ہے کی یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ لہٰذا تم اسے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ”فَرُفِعَت“ کا معنی ہے یعنی میری اس رات کی معرفت و شناخت اُٹھالی گئی ہے۔
1517. رمضان المبارک کی تئیسویں رات کو دیہاتی شخص کا مدینہ منوّرہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا مستحب ہے۔ جبکہ ان کی رہائش مدینہ منوّرہ کے قریب ہو تاکہ وہ شب قدر کو مسجد نبوی میں رہ کر تلاش کریں
سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں گاؤں میں رہتا ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ وہاں نماز بھی ادا کرتا ہوں، تو آپ مجھے کسی رات کے بارے میں حُکم دیں جس رات میں اس مسجد میں آگر نماز ادا کروں (یعنی مسجد نبوی میں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تئیسویں رات کو آجانا۔ جناب محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ کے بیٹے سے پوچھا، آپ کے والد گرامی کیسے کیا کرتے تھے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز پڑھ کر مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے پھر صبح کی نماز ادا کرنے تک نہیں نکلتے تھے۔ پھر وہ مسجد سے نکلتے تو اُن کی سواری مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی تو وہ اُس پر سوار ہوکر اپنے گھر والوں کے پاس چلے جاتے۔