سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے عاشوراء کے دن کے بارے میں فرمایا کہ وہ نو تاریخ کا دن ہے۔ میں نے عرض کیا تو کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح (نو تاریخ کا) روزہ رکھتے تھے؟
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث کہ عرفہ کے دن کا روزہ گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفّارہ بنتا ہے۔“ میں عاشوراء کے باب میں لکھوا چکا ہوں۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفہ کا دن، قربانی کا دن اور تشریق کے دن ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور وہ کھانے پینے کے دن ہیں۔
1444. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اور دعا کے لئے قوت وطاقت کو جمع کرنے کے لئے عرفات میں عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا مستحب ہے۔ کیونکہ عرفہ کے دن کی دعا سب دعاؤں سے افضل واعلیٰ ہے یا افضل دعاؤں میں سے ایک ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ محترمہ سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا تھا۔ آپ کے پاس دودھ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمالیا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحجہ کے دس دنوں میں روزہ نہیں رکھا۔ جناب ابوبکر نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بیان کیے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرہ ذوالحجہ میں کبھی روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
1446. اس علت وسبب کا بیان جس کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض نفلی کا م ترک کردیتے تھے اگرچہ آپ ان کی ترغیب بھی دلاتے تھے۔ اور ڈر یہ تھا کہ کہیں وہ فعل مسلمانوں پر فرض نہ کردیا جائے، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں پر فرائض میں تخفیف کرنا پسند فرماتے تھے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل ترک کردیتے حالانکہ آپ اسے کرنا پسند فرماتے تھے، آپ اس ڈر سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر باقاعدگی سے عمل کرنے لگیں گے تو اُن پر فرض کردیا جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں پر خفیف اور آسان فرائض پسند یدہ تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں عبادت میں سخت محنت کرنے والا شخص تھا۔ تو میرے والد گرامی نے میری شادی کردی۔ پھر وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میری بیوی سے پوچھا، تم نے اپنے خاوند کو کیسے پایا؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ بڑے اچھے نیک مرد ہیں جو نہ رات کو سوتے ہیں، نہ دن کو روزہ چھوڑتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے سخت ڈانٹ پلائی، پھر کہا کہ میں نے تیری شادی ایک مسلمان شریف عورت کے ساتھ کی ہے اور تم نے اسے حقوق زوجیت سے محروم کررکھا ہے۔ لیکن میں نے اپنی عبادت میں قوت و محنت کی وجہ سے والد صاحب کی باتوں کی پروانہ کی حتّیٰ کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن میں تو سوتا بھی ہوں اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں۔ روزے بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں۔ اس لئے تم بھی (رات کو) سویا بھی کرو اور نماز بھی پڑھ لیا کرو۔ روزے رکھنے میں ناغہ بھی کیا کرو۔ اور ہر مہینے تین دن روزے رکھ لیا کرو۔“ تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اس سے زیادہ عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو داؤد عليه السلام کے روزے رکھ لیا کرو۔ ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑ دیا کرو اور قرآن مجید ہر مہینے میں ختم کرلیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اس سے زیادہ عمل کرنے کی طاقت و ہمّت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ پندرہ دن میں قرآن مجید ختم کرلیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اس سے زیادہ کی قوت رکھتا ہوں۔ جناب مجاہد کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات دن میں قرآن ختم کرنے کا مشورہ و ہدایت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ہر عمل کا شوق اور رغبت ہوتی ہے اور ہر رغبت و شوق کے لئے سستی ہوتی ہے۔ تو جس شخص کی سستی و کمزوری سنّت نبوی کے مطابق ہوئی تو وہ ہدایت یافتہ ہوگیا اور جس کی سستی کسی دوسرے سبب سے ہوئی تو وہ ہلاک ہوگیا“ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کرلیتا تو مجھے یہ بات میرے گھر والوں اور مال و دولت جیسی نعمتوں کے حصول سے زیادہ محبوب ہوتی اور میں آج بوڑھا اور کمزور ہوچکا ہوں۔ اور میں وہ عمل ترک کرنا ناپسند کرتا ہوں جس کا حُکم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔
حدثني عبد الوارث بن عبد الصمد ، املى من اصله، حدثني ابي ، حدثنا شعبة ، عن زياد بن الفياض ، عن ابي عياض ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالته عن الصوم، فقال:" صم يوما من كل شهر، ولك اجر ما بقي". قلت: إني اطيق اكثر من ذلك. فقال:" صم يومين من كل شهر، ولك اجر ما بقي". قلت: إني اطيق اكثر من ذلك. قال:" صم ثلاثة ايام، ولك اجر ما بقي". قلت: إني اطيق اكثر من ذلك. قال:" صم اربعة ايام ولك اجر ما بقي". قال: إني اطيق اكثر من ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن احب الصيام صوم داود، كان يصوم يوما، ويفطر يوما" حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، أَمْلَى مِنْ أَصْلِهِ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْفَيَّاضِ ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ:" صُمْ يَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ". قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ. فَقَالَ:" صُمْ يَوْمَيْنِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ". قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ:" صُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ". قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ:" صُمْ أَرْبَعَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ". قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَبَّ الصِّيَامِ صَوْمُ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا"
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور روزوں کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ہر مہینے ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور تمہیں باقی دنوں کا اجر بھی ملے گا۔ میں نے عرض کی کہ میں اس سے زیادہ عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ہر مہینے دو دن روزہ رکھا کرو اور تمہیں باقی دنوں کا اجر و ثواب بھی ملے گا۔“ میں نے عرض کیا کہ بلاشبہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو اور تمہیں باقی دنوں کا ثواب بھی مل جائے گا۔ میں نے پھر کہا کہ میں اس سے زیادہ کی ہمت و طاقت پاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار روزے رکھ لیا کرو اور تمہیں باقی دنوں کا ثواب بھی ملے گا۔“ انہوں نے کہا کہ بیشک میں اس سے زیادہ عمل کی طاقت و قوت پاتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پسندیدہ روزے داؤد عليه السلام کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔“