سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں عبادت میں سخت محنت کرنے والا شخص تھا۔ تو میرے والد گرامی نے میری شادی کردی۔ پھر وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میری بیوی سے پوچھا، تم نے اپنے خاوند کو کیسے پایا؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ بڑے اچھے نیک مرد ہیں جو نہ رات کو سوتے ہیں، نہ دن کو روزہ چھوڑتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے سخت ڈانٹ پلائی، پھر کہا کہ میں نے تیری شادی ایک مسلمان شریف عورت کے ساتھ کی ہے اور تم نے اسے حقوق زوجیت سے محروم کررکھا ہے۔ لیکن میں نے اپنی عبادت میں قوت و محنت کی وجہ سے والد صاحب کی باتوں کی پروانہ کی حتّیٰ کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن میں تو سوتا بھی ہوں اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں۔ روزے بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں۔ اس لئے تم بھی (رات کو) سویا بھی کرو اور نماز بھی پڑھ لیا کرو۔ روزے رکھنے میں ناغہ بھی کیا کرو۔ اور ہر مہینے تین دن روزے رکھ لیا کرو۔“ تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اس سے زیادہ عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو داؤد عليه السلام کے روزے رکھ لیا کرو۔ ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑ دیا کرو اور قرآن مجید ہر مہینے میں ختم کرلیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اس سے زیادہ عمل کرنے کی طاقت و ہمّت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ پندرہ دن میں قرآن مجید ختم کرلیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اس سے زیادہ کی قوت رکھتا ہوں۔ جناب مجاہد کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات دن میں قرآن ختم کرنے کا مشورہ و ہدایت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ہر عمل کا شوق اور رغبت ہوتی ہے اور ہر رغبت و شوق کے لئے سستی ہوتی ہے۔ تو جس شخص کی سستی و کمزوری سنّت نبوی کے مطابق ہوئی تو وہ ہدایت یافتہ ہوگیا اور جس کی سستی کسی دوسرے سبب سے ہوئی تو وہ ہلاک ہوگیا“ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کرلیتا تو مجھے یہ بات میرے گھر والوں اور مال و دولت جیسی نعمتوں کے حصول سے زیادہ محبوب ہوتی اور میں آج بوڑھا اور کمزور ہوچکا ہوں۔ اور میں وہ عمل ترک کرنا ناپسند کرتا ہوں جس کا حُکم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔