حدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابو داود , حدثنا شيبان بن عبد الرحمن النحوي , عن اشعث بن ابي الشعثاء , عن جعفر بن ابي ثور , عن جابر بن سمرة , قال:" كنا نصوم عاشوراء قبل ان يفرض رمضان , وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحثنا عليه , ويتعهدنا عليه , فلما افترض رمضان لم يحثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يتعهدنا عليه , وكنا نفعله" . قال ابو بكر: خبر جابر بن سمرة مبني بخبر عمار بن ياسر , وفيه دلالة على انهم قد كانوا يصومون عاشوراء بعد نزول فرض رمضان كخبر ابن عمر، وعائشة , فمن شاء صامه , ومن شاء لم يصمه. قال ابو بكر: سالني مسدد وهو بعض اصحابنا , عن معنى خبر عمار بن ياسر , فقلت له مجيبا له: إن النبي صلى الله عليه وسلم إذا امر امته بامر مرة واحدة، لم يجب ان يكون الامر بذلك في كل سنة , ولا في كل وقت ثان. وكان ما امر به في وقت من الاوقات , فعلى امته فعل ذلك الشيء إن كان الامر امر فرض , فالفرض واجب عليهم ابدا حتى يخبر في وقت ثان ان ذلك الفرض ساقط عنهم , وإن كان الامر امر ندب وإرشاد وفضيلة، كان ذلك الفعل فضيلة ابدا , حتى يزجرهم عن ذلك الفعل في وقت ثان , وليس سكته في الوقت الثاني بعد الامر به في الوقت الاول يسقط فرضا إن كان امرهم في الابتداء امر فرض , ولا كان سكوته في الوقت الثاني عن الامر بامر الفضيلة ما يبطل ان يكون ذلك الفعل في الوقت الثاني فعل فضيلة ؛ لانه إذا امر بالشيء مرة، كفى ذلك الامر إلى الابد , إلا ان يامر بضده. والسكت لا يفسخ الامر. هذا معنى ما اجبت السائل عن هذه المسالة , ولعلي زدت في الشرح في هذا الموضع على ما اجبت السائل في ذلك الوقتحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ , حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّحْوِيُّ , عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ , عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , قَالَ:" كُنَّا نَصُومُ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُثُّنَا عَلَيْهِ , وَيَتَعَهَّدُنَا عَلَيْهِ , فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ يَحُثَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَتَعَهَّدْنَا عَلَيْهِ , وَكُنَّا نَفْعَلُهُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ مَبْنِيٌّ بِخَبَرِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , وَفِيهِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ بَعْدَ نُزُولِ فَرْضِ رَمَضَانَ كَخَبَرِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ , فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ , وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَأَلَنِي مُسَدَّدٌ وَهُوَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا , عَنْ مَعْنَى خَبَرِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , فَقُلْتُ لَهُ مُجِيبًا لَهُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَ أُمَّتَهُ بِأَمْرٍ مَرَّةً وَاحِدَةً، لَمْ يَجِبْ أَنْ يَكُونَ الأَمْرُ بِذَلِكَ فِي كُلِّ سَنَةٍ , وَلا فِي كُلِّ وَقْتٍ ثَانٍ. وَكَانَ مَا أَمَرَ بِهِ فِي وَقْتٍ مِنَ الأَوْقَاتِ , فَعَلَى أُمَّتِهِ فِعْلُ ذَلِكَ الشَّيْءِ إِنْ كَانَ الأَمْرُ أَمْرَ فَرْضٍ , فَالْفَرْضُ وَاجِبٌ عَلَيْهِمْ أَبَدًا حَتَّى يُخْبِرَ فِي وَقْتٍ ثَانٍ أَنَّ ذَلِكَ الْفَرْضَ سَاقِطٌ عَنْهُمْ , وَإِنْ كَانَ الأَمْرُ أَمْرَ نَدْبٍ وَإِرْشَادٍ وَفَضِيلَةٍ، كَانَ ذَلِكَ الْفِعْلُ فَضِيلَةً أَبَدًا , حَتَّى يَزْجُرَهُمْ عَنْ ذَلِكَ الْفِعْلِ فِي وَقْتٍ ثَانٍ , وَلَيْسَ سَكْتُهُ فِي الْوَقْتِ الثَّانِي بَعْدَ الأَمْرِ بِهِ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ يُسْقِطُ فَرْضًا إِنْ كَانَ أَمَرَهُمْ فِي الابْتِدَاءِ أَمْرَ فَرْضٍ , وَلا كَانَ سُكُوتُهُ فِي الْوَقْتِ الثَّانِي عَنِ الأَمْرِ بِأَمْرِ الْفَضِيلَةِ مَا يُبْطِلُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ الْفِعْلُ فِي الْوَقْتِ الثَّانِي فِعْلَ فَضِيلَةٍ ؛ لأَنَّهُ إِذَا أَمَرَ بِالشَّيْءِ مَرَّةً، كَفَى ذَلِكَ الأَمْرُ إِلَى الأَبَدِ , إِلا أَنْ يَأْمُرَ بِضِدِّهِ. وَالسَّكْتُ لا يَفْسَخُ الأَمْرَ. هَذَا مَعْنَى مَا أَجَبْتُ السَّائِلَ عَنْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ , وَلَعَلِّي زِدْتُ فِي الشَّرْحِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ عَلَى مَا أَجَبْتُ السَّائِلَ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رمضان المبارک کی فرضیت سے پہلے ہم عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس روزے کی ترغیب دلاتے تھے اور اس بارے میں ہماری نگرانی کرتے تھے۔ پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی ترغیب نہیں دلائی اور نہ اس پر ہماری نگرانی کی، اور ہم یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث کی بنیاد سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رمضان المبارک کی فرضیت کے نازل ہونے کے بعد بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے جیسا کہ سیدنا ابن عمراورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں ہے کہ جو شخص چاہتا وہ اس دن کا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہمارے ساتھی مسدد نے مجھے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا معنی پوچھا تو میں نے اُسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی اُمّت کو کوئی ایک حُکم ایک ہی بار دیا تو وہ حُکم ہر سال اور ہردوسرے وقت میں دینا واجب نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی کوئی حُکم دیا تو آپ کی اُمّت پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اگر وہ حُکم فرضی تھا تو وہ فرض ہمیشہ ہمیشہ فرض رہے گا حتّیٰ کہ آپ کسی دوسرے موقع پر بتادیں کہ وہ فرض ان سے ساقط ہوگیا ہے اور اگر وہ حُکم استحباب، ارشاد یا فضیلت و ثواب کے حصول کے لئے تھا تو وہ کام ہمیشہ فضیلت کا باعث ہوگا حتّیٰ کہ آپ کسی دوسرے وقت پر اس فعل سے منع فرمادیں اور آپ کا دوسرے موقع پر خاموش رہنا، جبکہ آپ پہلے اس کا حُکم دے چکے ہوں، اس فرض کے ساقط ہونے کی دلیل نہیں اگر ابتداء میں انہیں فرض حُکم دیا گیا ہو اور آپ کا دوسرے موقع پر خاموش رہنا کسی فضیلت والے کام کے باطل ہونے کی دلیل نہیں۔ جبکہ آپ اس کا مستحب حُکم دے چکے ہوں۔ کیونکہ جب آپ کسی چیز کا ایک بار حُکم دے دیں۔ تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کافی ہوتا ہے الاّ یہ کہ آپ اس حُکم کے متضاد حُکم دے دیں۔ جبکہ آپ کا خاموش رہنا اس حُکم کو منسوخ نہیں کرتا۔ اس مسئلہ میں، میں نے سائل کو یہی معنی بتایا تھا اور شاید کہ میں نے اس وقت اس مسئلے کے متعلق زیادہ شرح بھی کی ہے اور سائل کو اُس وقت مختصر جواب دیا تھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ اُن سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ عليه السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ اور فتح دی تھی لہٰذا اس دن کی تعظیم کے لئے روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ عليه السلام کے زیادہ قریبی اور حقدار ہیں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حُکم دیا۔ جناب ابوبشر سے اسی طرح روایت مروی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ”آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس دن کا روزہ رکھنے کا حُکم بھی دیا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام مسلم بن حجاج نے مجھ سے اس بارے میں سوال کیا تھا۔
1432. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حُکم فرضی حُکم نہیں تھا نہ ابتداء کے طور پر اور نہ گنتی کے اعتبار سے۔ بلکہ یہ فضیلت اور استحباب کا حُکم تھا
جناب حمید بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ عاشورا کے دن مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو اُنہوں نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ ”اے اہل مدینہ، تمہارے علماء کرام کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”یہ عاشوراء کا دن ہے، تم پر اس دن کا روزہ فرض نہیں کیا گیا۔ جبکہ میں نے روزہ رکھا ہے تو جو شخص روزہ رکھنا پسند کرے، وہ روزہ رکھ لے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ”لم“(نہیں) صرف ماضی کے لئے آتا ہے۔
1433. عاشوراء کے روزے کی فضیلت اور رمضان المبارک کے روزوں کے سوا باقی دنوں کے روزوں پر اس کی فضیلت کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس روزے کا اہتمام کرنا
جناب عبید اللہ بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزے کے سوا کسی روزے کی فضیلت کا اہتمام کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھا ہو اور اس ماہ رمضان کے روزوں کا۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عاشوراء کے دن کے بارے میں، میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفّارہ بنے گا اور عرفہ کے دن کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہوں کی مغفرت کا سبب بنے گا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گنا ہوں کا کفّارہ بنتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نیک عمل کبھی فعل سے متقدم بھی ہوتا ہے۔ اس طرح سابقہ نیک عمل آئندہ سال کے گناہوں کا کفّارہ بن جاتا ہے۔
1435. عاشورا کے دن کی عظمت کی لئے ماؤں کا اپنے بچّوں کا عاشورا کے دن دودھ نہ پلانا مستحب ہے۔ بشرطیکہ روایت صحیح ہو، کیونکہ میرا دل خالد بن ذکوان کے بارے میں مطمئن نہیں ہے۔
حضرت ربیح بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ارد گرد کی انصاری بستیوں میں پیغام بھیجا کہ جس شخص نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے تو وہ اپنا روزہ مکمّل کرے اور جس نے بغیر روزہ رکھے صبح کی ہے تو وہ باقی دن (روزے دار کی حیثیت سے) مکمّل کرے تو ہم اس کے بعد اس دن روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچّوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے۔ ہم اُنہیں مسجد میں لے جاتے اور اُنہیں روئی سے کھلونے بنا دیتے۔ جب اُن میں سے کوئی ایک (بھوک کی وجہ سے) روتا تو ہم اُسے وہی کھلونا دے دیتے حتّیٰ کہ افطاری کا وقت ہوتا (تو اُسے دودھ دیتے)۔
غلیلہ بنت امینہ امتہ اللہ بنت رزینہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عاشوراء کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ آپ اس دن کی تعظیم کرتے تھے۔ آپ اپنے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شیر خوار بچّوں کو بلاتے اور اُن کے مُنہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالتے اور اُن کی ماؤں کو حُکم دیتے کہ انہیں شام تک دودھ نہ پلائیں۔