صحيح ابن خزيمه
نفلی روزوں کے ابواب کا مجموعہ
1430.
اس حدیث کا بیان جس کا معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عالم دین کو اس کے معنی میں غلطی لگی ہے -اس کا خیال ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے عاشوراء کا روزہ مکمّل طور پر منسوخ ہوگیا ہے
حدیث نمبر: 2083
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ , حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّحْوِيُّ , عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ , عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , قَالَ:" كُنَّا نَصُومُ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُثُّنَا عَلَيْهِ , وَيَتَعَهَّدُنَا عَلَيْهِ , فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ يَحُثَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَتَعَهَّدْنَا عَلَيْهِ , وَكُنَّا نَفْعَلُهُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ مَبْنِيٌّ بِخَبَرِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , وَفِيهِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ بَعْدَ نُزُولِ فَرْضِ رَمَضَانَ كَخَبَرِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ , فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ , وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَأَلَنِي مُسَدَّدٌ وَهُوَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا , عَنْ مَعْنَى خَبَرِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , فَقُلْتُ لَهُ مُجِيبًا لَهُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَ أُمَّتَهُ بِأَمْرٍ مَرَّةً وَاحِدَةً، لَمْ يَجِبْ أَنْ يَكُونَ الأَمْرُ بِذَلِكَ فِي كُلِّ سَنَةٍ , وَلا فِي كُلِّ وَقْتٍ ثَانٍ. وَكَانَ مَا أَمَرَ بِهِ فِي وَقْتٍ مِنَ الأَوْقَاتِ , فَعَلَى أُمَّتِهِ فِعْلُ ذَلِكَ الشَّيْءِ إِنْ كَانَ الأَمْرُ أَمْرَ فَرْضٍ , فَالْفَرْضُ وَاجِبٌ عَلَيْهِمْ أَبَدًا حَتَّى يُخْبِرَ فِي وَقْتٍ ثَانٍ أَنَّ ذَلِكَ الْفَرْضَ سَاقِطٌ عَنْهُمْ , وَإِنْ كَانَ الأَمْرُ أَمْرَ نَدْبٍ وَإِرْشَادٍ وَفَضِيلَةٍ، كَانَ ذَلِكَ الْفِعْلُ فَضِيلَةً أَبَدًا , حَتَّى يَزْجُرَهُمْ عَنْ ذَلِكَ الْفِعْلِ فِي وَقْتٍ ثَانٍ , وَلَيْسَ سَكْتُهُ فِي الْوَقْتِ الثَّانِي بَعْدَ الأَمْرِ بِهِ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ يُسْقِطُ فَرْضًا إِنْ كَانَ أَمَرَهُمْ فِي الابْتِدَاءِ أَمْرَ فَرْضٍ , وَلا كَانَ سُكُوتُهُ فِي الْوَقْتِ الثَّانِي عَنِ الأَمْرِ بِأَمْرِ الْفَضِيلَةِ مَا يُبْطِلُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ الْفِعْلُ فِي الْوَقْتِ الثَّانِي فِعْلَ فَضِيلَةٍ ؛ لأَنَّهُ إِذَا أَمَرَ بِالشَّيْءِ مَرَّةً، كَفَى ذَلِكَ الأَمْرُ إِلَى الأَبَدِ , إِلا أَنْ يَأْمُرَ بِضِدِّهِ. وَالسَّكْتُ لا يَفْسَخُ الأَمْرَ. هَذَا مَعْنَى مَا أَجَبْتُ السَّائِلَ عَنْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ , وَلَعَلِّي زِدْتُ فِي الشَّرْحِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ عَلَى مَا أَجَبْتُ السَّائِلَ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رمضان المبارک کی فرضیت سے پہلے ہم عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس روزے کی ترغیب دلاتے تھے اور اس بارے میں ہماری نگرانی کرتے تھے۔ پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی ترغیب نہیں دلائی اور نہ اس پر ہماری نگرانی کی، اور ہم یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث کی بنیاد سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رمضان المبارک کی فرضیت کے نازل ہونے کے بعد بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے جیسا کہ سیدنا ابن عمراورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں ہے کہ جو شخص چاہتا وہ اس دن کا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہمارے ساتھی مسدد نے مجھے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا معنی پوچھا تو میں نے اُسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی اُمّت کو کوئی ایک حُکم ایک ہی بار دیا تو وہ حُکم ہر سال اور ہردوسرے وقت میں دینا واجب نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی کوئی حُکم دیا تو آپ کی اُمّت پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اگر وہ حُکم فرضی تھا تو وہ فرض ہمیشہ ہمیشہ فرض رہے گا حتّیٰ کہ آپ کسی دوسرے موقع پر بتادیں کہ وہ فرض ان سے ساقط ہوگیا ہے اور اگر وہ حُکم استحباب، ارشاد یا فضیلت و ثواب کے حصول کے لئے تھا تو وہ کام ہمیشہ فضیلت کا باعث ہوگا حتّیٰ کہ آپ کسی دوسرے وقت پر اس فعل سے منع فرمادیں اور آپ کا دوسرے موقع پر خاموش رہنا، جبکہ آپ پہلے اس کا حُکم دے چکے ہوں، اس فرض کے ساقط ہونے کی دلیل نہیں اگر ابتداء میں انہیں فرض حُکم دیا گیا ہو اور آپ کا دوسرے موقع پر خاموش رہنا کسی فضیلت والے کام کے باطل ہونے کی دلیل نہیں۔ جبکہ آپ اس کا مستحب حُکم دے چکے ہوں۔ کیونکہ جب آپ کسی چیز کا ایک بار حُکم دے دیں۔ تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کافی ہوتا ہے الاّ یہ کہ آپ اس حُکم کے متضاد حُکم دے دیں۔ جبکہ آپ کا خاموش رہنا اس حُکم کو منسوخ نہیں کرتا۔ اس مسئلہ میں، میں نے سائل کو یہی معنی بتایا تھا اور شاید کہ میں نے اس وقت اس مسئلے کے متعلق زیادہ شرح بھی کی ہے اور سائل کو اُس وقت مختصر جواب دیا تھا۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم