افطاری کے وقت اور جن چیزوں سے افطاری کرنا مستحب ہے اُن کے ابواب کا مجموعہ
1407.
1407. اس حدیث کا بیان جو افطاری کے وقت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ جبکہ میرے نزدیک اس کا معنی امر و حُکم کا ہے
حدثنا احمد بن عبدة , حدثنا سفيان , ح وحدثنا الحسن بن محمد بن الصباح الزعفراني , حدثنا ابو معاوية , قالا: حدثنا هشام بن عروة , ح وحدثنا هارون بن إسحاق , حدثنا عبدة , عن هشام , عن ابيه , عن عاصم بن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اقبل الليل، وادبر النهار، وغربت الشمس افطر الصائم" . قال هارون بن إسحاق: فقد افطرت. وقال احمد بن عبدة:" إذا اقبل الليل من هاهنا". ولم يقل احمد ولا هارون: لي. قال ابو بكر: هذه اللفظة:" فقد افطر الصائم"، لفظ خبر ومعناه معنى الامر، اي: فليفطر الصائم , إذ قد حل له الإفطار. ولو كان معنى هذه اللفظة معنى لفظه، كان جميع الصوام فطرهم وقتا واحدا , ولم يكن لقوله صلى الله عليه وسلم:" لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر" , ولقوله:" لا يزال الدين ظاهرا ما عجل الناس الفطر"، معنى , ولا كان لقوله صلى الله عليه وسلم:" يقول الله تبارك وتعالى: احب عبادي إلي اعجلهم فطرا" معنى لو كان الليل إذا اقبل وادبر النهار، وغابت الشمس كان الصوام جميعا يفطرون , ولو كان فطر جميعهم في وقت واحد لا يتقدم فطر احدهم غيره لما كان لقوله صلى الله عليه وسلم:" من وجد تمرا، فليفطر عليه , ومن لم يجد، فليفطر على الماء" معنى , ولكن معنى قوله:" فقد افطر" , اي: فقد حل له الفطر , والله اعلمحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , ح وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الزَّعْفَرَانِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ أَفْطَرَ الصَّائِمُ" . قَالَ هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ: فَقَدْ أَفْطَرْتُ. وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ:" إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا". وَلَمْ يَقُلْ أَحْمَدُ وَلا هَارُونُ: لِي. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ:" فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ"، لَفْظُ خَبَرٍ وَمَعْنَاهُ مَعْنَى الأَمْرِ، أَيْ: فَلْيُفْطِرِ الصَّائِمُ , إِذْ قَدْ حَلَّ لَهُ الإِفْطَارُ. وَلَوْ كَانَ مَعْنَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ مَعْنَى لَفْظِهِ، كَانَ جَمِيعُ الصُّوَّامُ فِطْرُهُمْ وَقْتًا وَاحِدًا , وَلَمْ يَكُنْ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ" , وَلِقَوْلِهِ:" لا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ"، مَعْنًى , وَلا كَانَ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا" مَعْنًى لَوْ كَانَ اللَّيْلُ إِذَا أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَابَتِ الشَّمْسُ كَانَ الصُّوَّامُ جَمِيعًا يُفْطِرُونَ , وَلَوْ كَانَ فِطْرُ جَمِيعِهِمْ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ لا يَتَقَدَّمُ فِطْرُ أَحَدِهِمْ غَيْرَهُ لَمَا كَانَ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ وَجَدَ تَمْرًا، فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ , وَمَنْ لَمْ يَجِدْ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى الْمَاءِ" مَعْنًى , وَلَكِنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ:" فَقَدْ أَفْطَرَ" , أَيْ: فَقَدْ حَلَّ لَهُ الْفِطْرُ , وَاللَّهُ أَعْلَمُ
سیدنا عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب رات آجائے اور دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار، روزہ کھول لے۔“ جناب ہارون کی روایت میں ہے کہ ”تو تم نے روزہ کھول دیا۔“ اور جناب احمد بن عبدہ کی روایت میں ہے کہ ”جب ادھر سے رات آجائے۔“ جناب احمد اور ہارون کی روایات میں ” لی“(مجھے فرمایا) کا لفظ نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ” تو روزے دار نے روزہ کھول دیا۔“ یہ الفاظ خبری انداز کے ہیں، لیکن ان کا معنی امر کا ہے۔ یعنی تو روزے دار روزہ کھول دے کیونکہ اس کی افطاری کا وقت ہوگیا ہے۔ اور اگر ان الفاظ کا معنی الفاظ کے مطابق خبری ہوتا تو تما م روزے داروں کی افطاری کا وقت ایک ہی ہوتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرامین کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”لوگ جب تک افطاری کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے، وہ خیر وبھلائی کے ساتھ رہیں گے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ ”دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ روزہ کھولنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا بھی کوئی معنی نہیں ہو گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ”کہ میرے بندوں میں سے میرا زیادہ محبوب وہ ہے جو اُن میں سے جلدی افطاری کرتا ہے۔“ اگر رات کے آنے اور دن کے جانے پر اور سورج کے غروب ہونے پر تمام روزے دار روزہ کھول دیتے اور اگر ان سب کی افطاری ایک ہی وقت میں ہوتی اور کوئی شخص دوسرے سے پہلے افطاری نہ کرسکتا تو پھر آپ کے اس فرمان کا بھی کوئی معنی نہیں رہتا۔ آپ کا ارشاد ہے: ”جس شخص کو کھجور ملے وہ اسی سے افطاری کرلے اور جسے کھجور نہ ملے تو وہ پانی سے روزہ کھول لے۔“ لیکن آپ کے اس فرمان ”تو اُس کا روزہ کھل گیا“ کا معنی یہ ہے کہ اُس کے لئے روزہ کھولنا حلال ہوگیا۔“ واللہ علم
1408. لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی پر رہیں گے جب تک روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے اور اس میں گویا اس بات کی دلیل ہے کہ جب وہ روزہ کھولنے میں تاخیر کریں گے تو وہ شر میں واقع ہو جائیں گے
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اُس وقت تک خیر وبھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک وہ روزہ کھولنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔“
1409. دین اسلام کے غلبے کا بیان - جب تک مسلمان افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے - اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ دین کا اطلاق اسلام کے بعض شعبوں پربھی ہو جاتا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین اسلام اُس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ روزہ کھولنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔ بلاشبہ یہود و نصاری افطاری کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔“
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اُمّت اُس وقت تک میری سنّت پر قائم رہے گی جب تک وہ روزہ کھولنے کے لئے ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار نہیں کرے گی۔“ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے سے ہوتے تو ایک شخص کو حُکم دیتے تو وہ کسی بلند جگہ سے (سورج کے غروب ہونے کو) دیکھتا، پھر جب وہ اطلاع دیتا کہ سورج غروب ہوگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کھول لیتے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہمیں محمد بن ابی صفوان نے اس طرح روایت بیان کی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ آخری کلام سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی نہیں ہوگی۔ شاید یہ کلام امام سفیان ثوری یا ابوحازم کا قول ہوگا، جو حدیث میں درج کر دیا گیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میرا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو ان میں سے سب سے جلدی افطاری کرتا ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب، افطاری کرنے کے بعد ادا کرتے تھے اگر چہ افطاری میں پانی کا ایک گھونٹ ہی ہوتا۔“ جناب موسیٰ بن سہل کہتے ہیں کہ قاسم بن غصن کوفہ کے رہنے والے ہیں، ان سے امام وکیع اور سلیمان بن حیان روایت کرتے ہیں۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے مجاہد کو (سامان جنگ دے کر) تیار کیا یا حاجی کو تیاری میں مدد دی یا اس کے بعد اُس کے گھر والوں کا خیال رکھا، روزے دار کو افطاری کرائی تو اُسے ان کے برابر اجر ملے گا، جبکہ ان سب کے اجر وثواب میں بھی کچھ کمی نہیں ہوگی۔“ یہ حدیث جناب صنعانی کی ہے۔ اور جناب علی بن منذر کی روایت میں ”یا حاجی کو تیاری میں مدد دی“ کے الفاظ نہیں ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت تک نماز نہ پڑھتے جب تک ہم آپ کے پاس پانی اور رطب (تر و تازہ) کھجوریں نہ لے آتے اور وہ کھا نہ لیتے اور پانی پی نہ لیتے۔ جب تازہ کھجوریں میسر ہوتیں۔ لیکن سردیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت تک نماز ادا نہ کرتے جب تک ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خشک کھجوریں اور پانی نہ لے آتے (اور آپ افطاری نہ کر لیتے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو خشک کھجور مل جائے تو وہ اس سے روزہ کھولے، اور جسے نہ ملے تو وہ پانی سے روزہ افطار کرے کیونکہ وہ پاکیزہ ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کو سعید بن عامر کی سند سے امام شعبہ سے صرف ابوبکر بن اسحاق اور محمد بن عمر ہی بیان کرتے ہیں۔