سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنّم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ابوسہیل سیدنا مالک بن انس رضی اللہ عنہ کے چچا ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین کے سرکش جنّوں کو زنجیروں میں جکڑدیا جاتا ہے اور جہنّم کے دردازے بند کردیے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا اور جنّت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے اے خیر کے طالب، آگے بڑھ (خوب نیکیاں کرلے) اور اے برائی کے چاہنے والے رُک جا۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے جہنّم سے آزاد ہونے والے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں ـ“
1288. ماہ رمضان کی فضیلت اور اس بات کا بیان کہ رمضان مسلمانوں کے لئے تمام مہینوں سے بہتر ہے اور رمضان شروع ہونے سے پہلے مؤمن کا عبادت کے لئے (فارغ ہونے کے لئے) مالی طاقت کو جمع کرنے کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا یہ مبارک مہینہ آگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کے ساتھ مسلمانوں کے لئے اس سے بہتر کوئی مہینہ مسلمانوں کے پاس سے نہیں گزرتا اور نہ منافقین کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی بُرا مہینہ گزرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کے ساتھ، یہ مہینہ شروع ہونے سے پہلے (مؤمن) کا اجر اور اس کے نوافل لکھ دیئے جاتے ہیں اور (منافق) کا گناہوں پر اصرار اور بد بختی اس مہینے کے شروع ہونے سے پہلے لکھ دی جاتی ہے ـ اور یہ اس طرح کہ مؤمن اس مہینے میں عبادت کے لئے مالی قوت جمع کر لیتا ہے ـ اور منافق مؤمنوں کی غفلت و بیخبری اور ان کے عیوب و نقائص تلاش کرنے کی تیاری کرتا ہے ـ پس یہ مہینہ غنیمت ہے جس سے مؤمن فائدہ حاصل کرتا ہے ـ“ یہ جناب یحیٰی کی روایت ہے اور جناب بندار کی روایت میں ہے کہ ”پس وہ مؤمنوں کے لئے غنیمت ہے جس سے فاجر شخص فائدہ حاصل کرلیتا ہے۔“
1289. ماہ رمضان کی پہلی رات اللہ تعالی کے اپنے مومن بندوں پر فضل و کرم اور سخاوت کرتے ہوئے اُن کی بخشش کرنے کے احسان کا ذکر بشرطیکہ حدیث صحیح ہو کیونکہ مجھے ابوربیع کے متعلق جرح و تعدیل کا علم نہیں ہے اور نہ اس کے شاگرد عمرو بن حمزہ القیسی کے بارے میں علم ہے
سیدنا انس بن ما لک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارے پاس آنے والا ہے اور تم استقبال کرنے والے ہو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔ تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا وحی نازل ہونے والی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ اُنہوں نے پوچھا تو کیا کوئی دشمن آگیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ ـ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر کیا آنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ، ماہ رمضان کی پہلی رات اس قبلے والے ہر شخص کو معاف فرما دیتا ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف اشارہ کیا تو ایک شخص اپنے سر کو ہلاہلا کر واہ واہ کہنے لگا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے کہا: ”اے فلاں، کیا اس بات سے تمہارا سینہ تنگ ہوا ہے۔ (تمہیں یہ بات پسند نہیں آئی)؟ اُس نے جواب دیا کہ نہیں، لیکن مجھے منافق یاد آگئے (کہ وہ بھی اہل قبلہ ہونے کی وجہ سے بخش دیئے جائیں گے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک منافقین کافر ہیں اور کافر کو اس مبارک فضیلت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔“
جناب ابوخطاب غفاری رحمه الله سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن فرماتے ہوئے سنا، جبکہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر بندے رمضان المبارک کی اہمیت و شان جان لیں تو میری اُمّت تمنّا کرے کہ سارا سال ہی رمضان رہے۔ تو بنوخزاعہ کے ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے نبی، ہمیں (اس کی شان کے متعلق) بیان کریں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جنّت کو رمضان کے لئے پورا سال آراستہ کیا جاتا ہے پھر جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ہوا چلتی ہے جس سے جنّت (کے درختوں) کے پتّے بجنے لگتے ہیں۔ حورعین یہ منظر دیکھ کر کہتی ہیں کہ ”اے ہمارے رب، اس مہینے میں اپنے بندوں میں سے ہمارے خاوند بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور اُن کی آنکھیں ہمارے ساتھ ٹھنڈی ہوں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لہٰذا جو شخص بھی رمضان میں ایک روزہ رکھتا ہے تو اُس کی شادی ایک حورعین سے کر دی جاتی ہے جو موتی سے بنے خیمے میں ہوتی ہے ـ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کیا ہے: «حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ» [ سورة الرحمٰن: 72 ]”حوریں خیموں میں محفوظ ہوںگی۔“ ہر عورت ستّر جوڑے پہنے ہوگی۔ کسی جوڑے کا رنگ دوسرے کے ساتھ ملتا نہیں ہوگا اُسے ستّر قسم کی خوشبوئیں دی جائیںگی۔ ان میں سے کوئی خوشبو دوسری سے ملتی جلتی نہ ہوگی۔ ان میں سے ہر عورت کی خدمت کے لئے ستّر ہزار خادمائیں ہوںگی۔ اور ستّر ہزار خادم ہوںگے ـ ہر خادم کے پاس سونے کا ایک پیالہ ہوگا ـ اس میں ایسا کھانا ہوگا کہ ہو لقمے کی لذّت مختلف ہوگی ـ ہر عورت کے لئے سرخ یاقوت سے بنے ستّر پلنگ ہوںگے ـ ہر پلنگ پر ستّر بچھونے ہوںگے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوںگے۔ ہر بچھو نے پر ستّر آراستہ تکیے ہوںگے۔ اور اس کے خاوند کو بھی سرخ یا قوت کے پلنگ پرجس پر موتیوں کی جھالر ہوگی اسی طرح کی نعمتیں عطا ہوںگی۔ وہ سونے کے دو کنگن پہنے ہوگا۔ یہ انعامات رمضان کے ہر روزے کے بدلے میں ہوںگے اور دیگر نیک اعمال کا بدلہ الگ ہوگا۔ بعض اوقات فریابی نے سہل بن حماد کی متن حدیث کے بعض الفاظ میں مخالفت کی ہے ـ جناب سلم بن جنادہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ کے اس فرمان «حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ» تک روایت بیان کی ـ
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز خطبہ ارشاد فرمایا تو کہا: ”لوگو، تمہارے پاس بڑا عظیم مہینہ آگیا ہے۔ یہ مہینہ بڑا مبارک ہے ـ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ـ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض اور اس کی راتوں کا قیام نفل قرار دیا ہے ـ جو شخص اس میں کوئی نیک کام کرکے اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے تو گویا اُس نے دیگر مہینوں میں ادا کیے گئے فرض جیسا کام ہے۔ اور جس شخص نے اس میں فرض ادا کیا تو گویا وہ اس شخص جیسا ثواب حاصل کرے گا جس نے ستّر فرائض دیگر مہینوں میں ادا کیے ہوں۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنّت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں روزے دار کا روزہ افطار کروایا تو وہ اس کے گنا ہوں کی بخشش کا باعث ہوگا اور جہنّم سے اس کی گردن کی آزادی کا ذریعہ بنے گا اور اُسے روزے دار کے برابر ثواب ملے گا جبکہ روزے دار کے ثواب میں بھی کچھ کمی نہیں ہوگی۔ صحابہ نے عر ض کیا کہ ہم میں سے ہر شخص کو افطاری کرانے کا سامان میسر نہیں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا کرتا ہے جو روزے دار کو ایک کھجور یا پانی کے گھونٹ یا کچی لسّی کے ایک گھونٹ سے روزہ افطار کراتا ہے۔ اس مہینے کا ابتدائی حصّہ باعثِ رحمت ہے، درمیانہ حصّہ مغفرت اور بخشش کا ہے اور آخری حصّہ جہنّم سے آزادی حاصل کرنے کا ہے۔ جس شخص نے اپنے غلام کو تخفیف وآسانی دی تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف کر دیتا ہے اور اُسے جہنّم سے آزاد کر دیتا ہے۔ اس مہنیے میں چار کام بکثرت کرو۔ دو کاموں سے تم اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل کر لوگے اور دو کاموں سے تم بے پروا نہیں ہوسکتے۔ رہے وہ دو کام جن سے تم اپنے رب کی رضا حاصل کر لوگے تو اس بات کی گواہی دینا کہ ایک اللہ کے سوا کوئی سچّا معبود نہیں اور اس سے گناہوں کی بخشش مانگنا ہے۔ اور وہ دو چیزیں جن سے تم بے پراو نہیں ہوسکتے تو وہ یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنّت کا سوال کرو اور جہنّم سے اُس کی پناہ میں آجاؤ۔ اور جس شخص نے اس مہینے میں روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا تو اللہ تعالیٰ اُسے میرے حوض سے پانی پلائے گا جس سے وہ جنّت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہو گا۔“