1160. جمعہ کے دن کی فضیلت اور اس بات کا بیان کہ جمعہ تمام دنوں سے افضل و اعلیٰ دن ہے۔ اس دن جنّوں اور انسانوں کے سوا تمام مخلوقات خوف زدہ اور ڈرتی ہیں اس سلسلے میں ایک مختصر غیر مفصل روایت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج کسی ایسے دن میں نہ طلوع ہوتا ہے نہ غروب کہ جو دن جمعہ کے دن سے افضل یا اعظم ہو۔ اور جنّوں اور انسانوں کے سوا ہر جانور جمعہ کے دن خوفزدہ ہوتا ہے اور ڈرتا ہے۔“ جناب علی بن حجر، ابن بزیع اور محمد بن ولید کی روایت میں ہے کہ ”کسی افضل دن پر“ اور انہوں نے ”افضل“ یا ”اعظم“ کے الفاظ میں شک نہیں کیا۔ (بلکہ صرف افضل کا لفظ بیان کیا ہے۔)
1161. اس مختصر روایت کی تفصیل بیان کرنے والی روایت کا ذکر جسے میں نے گزشتہ باب میں بیان کیا ہے اور اس دلیل کا بیان کہ جمعہ کے دن مخلوقات کے ڈرنے کی وجہ اُن کا یہ خوف ہے کہ اس دن قیامت قائم نہ ہوجائے کیونکہ قیامت جمعہ کے دن قائم ہوگی
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کا دن باقی تمام دنوں کا سردار ہے - اس دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، اس دن جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی دن جنّت سے نکالے گئے اور قیامت بھی جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ یہ مرسل روایت ہے“ جناب موسیٰ بن ابی عثمان نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایات نہیں سنیں۔ جبکہ ان کے والد گرامی جناب ابوعثمان تبان نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہوئی روایات بیان کی ہیں۔
نا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا محمد بن مصعب يعني القرقسائي ، حدثنا الاوزاعي ، عن ابي عمار ، عن عبد الله بن فروخ ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: " خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة , فيه خلق آدم , وفيه ادخل الجنة , وفيه اخرج منها , وفيه تقوم الساعة" . قال ابو بكر: قد اختلفوا في هذه اللفظة في قوله:" فيه خلق آدم" إلى قوله:" وفيه تقوم الساعة" , اهو عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ او عن ابي هريرة , عن كعب الاحبار؟ قد خرجت هذه الاخبار في كتاب الكبير من جعل هذا الكلام رواية من ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , ومن جعله عن كعب الاحبار , والقلب إلى رواية من جعل هذا الكلام عن ابي هريرة، عن كعب اميل ؛ لان محمد بن يحيى حدثنا، قال: نا محمد بن يوسف , ثنا الاوزاعي , عن يحيى , عن ابي سلمة، عن ابي هريرة: خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة , فيه خلق آدم , وفيه اسكن الجنة , وفيه اخرج منها , وفيه تقوم الساعة , قال: قلت له: اشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: بل شيء حدثناه كعب. وهكذا رواه ابان بن يزيد العطار , وشيبان بن عبد الرحمن النحوي، عن يحيى بن ابي كثير. قال ابو بكر: واما قوله:" خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة" , فهو عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم لا شك ولا مرية فيه , والزيادة التي بعدها:" فيه خلق آدم" إلى آخره. هذا الذي اختلفوا فيه: فقال بعضهم: عن النبي صلى الله عليه وسلم , وقال بعضهم: عن كعبنا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ يَعْنِي الْقُرْقُسَائِيَّ ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ , فِيهِ خُلِقَ آدَمُ , وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ , وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا , وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدِ اخْتَلَفُوا فِي هَذِهِ اللَّفْظَةِ فِي قَوْلِهِ:" فِيهِ خُلِقَ آدَمُ" إِلَى قَوْلِهِ:" وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ" , أَهُوَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَوْ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنْ كَعْبِ الأَحْبَارِ؟ قَدْ خَرَّجْتُ هَذِهِ الأَخْبَارَ فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ مَنْ جَعَلَ هَذَا الْكَلامَ رِوَايَةً مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمَنْ جَعَلَهُ عَنْ كَعْبِ الأَحْبَارِ , وَالْقَلْبُ إِلَى رِوَايَةِ مَنْ جَعَلَ هَذَا الْكَلامَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ كَعْبٍ أَمْيَلُ ؛ لأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى حَدَّثَنَا، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , ثنا الأَوْزَاعِيُّ , عَنْ يَحْيَى , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ , فِيهِ خُلِقَ آدَمُ , وَفِيهِ أُسْكِنَ الْجَنَّةَ , وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا , وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ , قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَلْ شَيْءٌ حَدَّثَنَاهُ كَعْبٌ. وَهَكَذَا رَوَاهُ أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ , وَشَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّحْوِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَأَمَّا قَوْلُهُ:" خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ" , فَهُوَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا شَكَّ وَلا مِرْيَةَ فِيهِ , وَالزِّيَادَةُ الَّتِي بَعْدَهَا:" فِيهِ خُلِقَ آدَمُ" إِلَى آخِرِهِ. هَذَا الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ كَعْبٍ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کا دن وہ بہترین دن ہے جس میں سورج طلوع ہوا ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور اسی دن اُنہیں جنّت میں داخل کیا گیا اور اسی دن اُنہیں جنّت سے نکالا گیا اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کے الفاظ ”اسی دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا“ سے لیکر ” اسی دن قیامت قائم ہوگی“ تک کے الفاظ میں علمائے کرام کا اختلاف ہے کہ کیا یہ الفاظ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیے ہیں یا جناب کعب الاحبار رحمه الله سے روایت کیے ہیں؟ میں نے کتاب الکبیر میں یہ روایات بیان کردی ہیں کہ کن راویوں نے یہ کلام سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور کن راویوں نے اسے جناب کعب الا حبار کا کلام بنا کر روایت کیا ہے جبکہ میرا دل ان راویوں کی روایت کی طرف زیادہ مائل ہے جنہوں نے اسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے جناب کعب رضی اللہ عنہ کے کلام کے طور پر بیان کیا ہے۔ کیونکہ ہمیں جناب محمد بن یحییٰ نے اپنی سند سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ”بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوا ہے وہ جمعہ کا دن ہے اسی دن حضرت آدم عليه السلام پیدا ہوئے اور اسی دن اُنہیں جنّت میں بسایا گیا اور اسی دن انہیں وہاں سے نکالا گیا اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔“ جناب ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا آپ نے یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ (نہیں) بلکہ یہ چیز ہمیں سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔ اسی طرح یہ روایت جناب ابان بن یزید عطار اور شیبان بن عبدالرحمان نحوی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ حدیث کے یہ الفاظ ”جمعہ کا دن وہ بہترین دن ہے جس میں سورج طلوع ہوا ہے ـ“ تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ الفاظ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیے ہیں اور اس کے بعد والے الفاظ ”اسی دن حضرت آدم عليه السلام پیدا کیے گئے“ سے لیکر آخر تک ـ تو ان میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ کچھ کے نزدیک یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں اور بعض دوسرے علماء کے نزدیک یہ جناب سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔
1162. جب قیامت کے دن لوگ اُٹھائے جائیں گے تو جمعہ اور جمعہ ادا کرنے والے افراد کی صف کا بیان اگر روایت صحیح ہو کیونکہ اس سند کے بارے میں میرا دل مطمئن نہیں ہے
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن، دنوں کو ان کی اصلی حالت پر اُٹھائے گا ـ اور جمعہ کا دن جگمگاتا ہوا روشن بناکر اُٹھایا جائے گا۔ جمعہ والے لوگ اسے اس طرح گھیرے ہوں گے جیسے دلہن (عزیز و اقارب کے جھرمٹ میں) دولہا کے سپرد کی جاتی ہے۔ جمعہ اُن کے لئے روشنی کرے گا اور وہ اس کی روشنی میں چل رہے ہوں گے۔ ان کے رنگ برف کی طرح سفید ہوں گے، ان کی خوشبو اور مہک کستوری کی طرح پھیل رہی ہوگی۔ وہ کافور کے پہاڑوں میں داخل ہو رہے ہوں گے - انہیں جنّ اور انسان دیکھ رہے ہوں گے (ان کے بلند مقام و مرتبے پر) تعجب و حیرت کی وجہ سے وہ اپنی نظریں نہیں جھکائیں گے ـ حتّیٰ کہ وہ جنّت میں داخل ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ کوئی اور شخص شریک نہیں ہوگا، صرف اجر و ثواب کی نیت سے اذانیں دینے والے مؤذن ان کے ساتھ شریک ہوں گے۔“ یہ جناب زکریا یحییٰ کی حدیث ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا فرمایا ـ اور اس میں پہاڑ اتوار والے دن بنائے ـ اور درخت سوموار والے دن پیدا کیے اور منگل والے دن ناپسندیدہ اشیاء کو پیدا کیا۔ بدھ والے دن نور پیدا کیا۔ اور زمین پر جانور جمعرات والے دن پھیلائے اور آدم عليه السلام کو جمعہ والے دن عصر کے بعد پیدا کیا ـ یہ آخری مخلوق تھی جو جمعہ والے دن آخری گھڑی میں پیدا کی ـ عصر اور رات کے درمیانی حصّے میں ـ“
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”اے سلمان، جمعہ کے دن کی کیا کیفیت و اہمیت ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول یہ خوب جانتے ہیں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے سلمان جمعہ کا دن کیا ہے؟“ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جاتنے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمان، جمعہ کا دن کیسا ہے؟“ میں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بخوبی جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمان، جمعہ کے دن تمہارے باپ یا تم سب کے باپ (آدم کی تخلیق) کو جمع کیا گیا ـ میں تمہیں جمعہ کے دن کی اہمیت و فضیلت بتاتا ہوں ـ جو شخص بھی جمعہ کے دن طہارت و پاکیزگی حاصل کرتا ہے جیسا کہ تمہیں حُکم دیا گیا ہے، اپنے گھر سے نکل کر جمعہ کے لئے (مسجد) آجاتا ہے ـ پھر بیٹھ کر خاموش (ہو کر خطبہ سُنتا) رہتا ہے ـ حتّیٰ کہ اپنی نماز ادا کر لیتا ہے تو یہ عمل پہلے جمعہ تک کے گنا ہوں کا کفارہ بن جائے گا۔“
سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تمہارے افضل و اعلیٰ دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے ـ اسی دن حضرت آدم عليه السلام پیدا کیے گئے اور اسی دن فوت کیے گئے اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن (لوگوں پر) بیہوشی طاری ہوگی۔ تو تم اس دن میں مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جا تا ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ کا جسم مبارک تو بوسیدہ ہوچکا ہوگا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام کھائے۔“
امام صاحب اپنے استاد محمد بن رافع کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک تو مٹی میں فنا ہو چکا ہو گا -