والدليل على ان صفوفهن إذا كانت متباعدة عن صفوف الرجال كانت افضل. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ صُفُوفَهُنَ إِذَا كَانَتْ مُتَبَاعِدَةً عَنْ صُفُوفِ الرِّجَالِ كَانَتْ أَفْضَلَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مردوں کی بہترین صفیں اگلی ہیں اور اُن کی بدترین صفیں پچھلی ہیں اور عورتوں کی بہترین صفیں پچھلی ہیں اور اُن کی بدترین صفیں اگلی ہیں -“
1132. عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حُکم ہے جبکہ وہ مردوں کے ساتھ نماز با جمات ادا کر رہی ہوں اور انہیں مردوں کے ستر پر نظر پڑنے کا ڈر ہو جبکہ مرد اُن کے آگے (اگلی صف میں) سجدے کر رہے ہوں
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت، جب مرد سجدہ کریں تو تم اپنی نظروں کی حفاظت کرو -“ امام ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی بکر سے پوچھا، (آپ نے) یہ حُکم کس لئے دیا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تہہ بند اور چادروں کے تنگ اور چھوٹے ہونے کہ وجہ سے -“ امام صاحب اپنے استاد ابو یحییٰ محمد بن عبدالرحیم کی سند سے مذکورہ بالا روایت کی مثال بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مردوں کے ستر سے اپنی نظروں کی حفاظت کرو۔“
1133. عورتیں جب مردوں کے ساتھ نماز (باجماعت) ادا کررہی ہوں تو مردوں کے سیدھے بیٹھ جانے سے پہلے انہیں اپنے سر سجدے سے اُٹھانا منع ہے جبکہ مردوں کے تہ بند تنگ اور چھوٹے ہوں اور یہ خدشہ ہو کہ عورتوں کی نظر اس کے ستر پر پڑے گی
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں (مردوں کے) کپڑوں تنگ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو نماز میں حُکم دیا جاتا تھا کہ وہ مردوں کے ٹھیک طرح سے بیٹھنے تک اپنے سر (سجدے سے) نہ اُٹھائیں -“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں: ”ثوری رحمه الله کی ابوحازم سے روایت کو میں کتاب الکبیر میں ”نماز میں لباس کے ابواب“ میں بیان کر چکا ہوں۔
1134. مقتدی کے پچھلی صف میں کھڑے ہونے پر سخت وعید کا بیان جبکہ مردوں کے پیچھے عورتیں نماز پڑھ رہی ہوں اور مقتدی کا ارادہ انہیں یا کسی عورت کو دیکھنا ہو اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب مقتدی اپنے پیچھے کھڑی عورتوں میں سے کسی کو دیکھ لے تو اس کا یہ فعل اس کی نماز کو فاسد نہیں کرتا
والدليل على ان المصلي إذا نظر إلى من خلفه من النساء لم يفسد ذلك الفعل صلاته. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّيَ إِذَا نَظَرَ إِلَى مَنْ خَلْفَهُ مِنَ النِّسَاءِ لَمْ يُفْسِدْ ذَلِكَ الْفِعْلُ صَلَاتَهُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے خوبصورت ترین لوگوں میں سے ایک حسین و جمیل عورت نماز پڑھا کرتی تھی تو کچھ لوگ اگلی صفوں میں نماز پڑھتے تاکہ اس پر نظر نہ پڑے اور کچھ لوگ پیچھے رہتے تا کہ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوں - پھر جب وہ رکوع کرتے تو اپنی بغل کے نیچے سے دیکھ لیتے تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی «وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ» [ سورة الحجر: 24 ]”اور یقیناًََ ہمیں ان کا علم ہے جو تم میں آگے بڑھنے والے ہیں اور ان کا بھی علم ہے جو پیچھے رہنے والے ہیں -“
نا ابو موسى، نا نوح بن قيس الحداني، فذكر الحديث بهذا المعنى. نا الفضل بن يعقوب، نا نوح، عن عمرو بن مالك، بنحوهنا أَبُو مُوسَى، نا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ الْحُدَّانِيُّ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِهَذَا الْمَعْنَى. نا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ، نا نُوحٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، بِنَحْوِهِ
امام صاحب اپنے استاد ابوموسیٰ کی سند سے مذکورہ بالا کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں۔
حضرت عمرہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ چیزیں دیکھ لیتے جو عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زیب و زینت اور بناؤ سنگھار اختیارکرلیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں مسجدوں میں آنے سے منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ حضرت عمرہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا، یہ کیا بات ہے؟ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ جناب عبدالجبار کی حدیث ہے اور جناب احمد کی روایت میں ہے کہ میں نے سیدنا عمرہ سے پوچھا، کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کا تذکرہ کیا تو فرمایا: ”بلاشبہ دنیا سرسبز و دلکش اور شیریں و لذیذ ہے لہٰذا اس (کے فتنوں) سے بچو اور عورتوں (کے فتنے) سے بچ کر رہنا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کی تین عورتوں کا ذکر کیا، دو عورتیں دراز قد تھیں (اس لئے) مشہور و معروف تھیں اور ایک عورت پست قد تھی جو معروف نہ تھی تو اُس نے (شہرت حاصل کرنے کے لئے) لکڑی کی دو (اونچی ایڑھی والی) جوتیاں بنوائیں اور ایک انگوٹھی بنوائی اور اسے بہترین خوشبو کستوری سے بھر دیا اور اُس کا ایک غلاف بھی بنوایا۔ لہٰذا جب وہ مسجد میں جاتی یا کسی مجلس کے پاس سے گزرتی تو اس غلاف کو ہٹا دیتی جس سے خوشبو کھل جاتی اور ہر طرف اس کی مہک پھیل جاتی۔ جناب مستمر فرماتے ہیں کہ وہ اپنی چھنگلی انگلی کے ساتھ خوشبو بکھیرتی تھی۔ انہوں نے تین انگلیوں کو بند کر کے چھنگلی انگلی کو تھوڑا سا جھکا کر دکھایا کہ اس طرح کر تی تھی۔
جناب عبدالرحمٰن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب عورتوں کو دیکھتے تو فرماتے کہ انہیں پیچھے رکھو جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کا مقام و مرتبہ رکھا ہے اور فرماتے، یہ عورتیں بنی اسرائیل کے مردوں کے ساتھ (نماز میں) صفیں بناتی تھیں۔ ایک عورت (لمبی ہونے کے لئے) سانچہ پہن لیتی تاکہ اپنے آشنا کے لئے اونچی ہوسکے (اس جرم کی سزا میں) ان پر حیض مسلط کر دیا گیا اور ان پر مساجد میں آنا حرام قرار دے دیا گیا۔ اور حضرت عبداللہ جب انہیں دیکھتے تو فرماتے کہ انہیں اسی جگہ مؤخر رکھو جہاں انہیں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت موقوف ہے مسند نہیں ہے -