جناب ابوملیح بیان کرتے ہیں کہ میں ایک اندھیری رات میں عشاء کی نماز کے لئے گھر سے نکلا - پھر جب میں واپس آیا تو میں نے دروازہ کھلوانے کے لئے دستک دی تو میرے والد گرامی نے پوچھا کہ کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں ابو ملیح ہوں - (اس پر اُن کے والد گرامی نے) فرمایا کہ میں نے حدیبیہ والے دن اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ ہم پر بارش ہوئی جس سے ہمارے جوتوں کے تلوے بھی نہ بھیگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اعلان کر دیا کہ تم نماز اپنے ٹھکانوں اور خیموں میں ادا کرلو۔
والدليل على ان حكم النهار في إباحة ترك الصلاة في الجماعة في المطر كحكم الليل سواء.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ حُكْمَ النَّهَارِ فِي إِبَاحَةِ تَرْكِ الصَّلَاةِ فِي الْجَمَاعَةِ فِي الْمَطَرِ كَحُكْمِ اللَّيْلِ سَوَاءٌ.
حضرت ابوملیح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حنین والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہم پر بارش برسی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز ٹھکانوں اور خیموں میں ادا کی جا ئے گی۔“
1103. ٹھکانوں اور خیموں میں نماز پڑھنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کے بارے میں، میں نے جو مختصر روایت بیان کی تھی، اس کی تفصیلی روایت کا بیان
والدليل على ان امر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك امر إباحة لا امر عزم، يكون متعديه عاصيا إن شهد الصلاة جماعة في المطر. وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ أَمْرُ إِبَاحَةٍ لَا أَمْرُ عَزْمٍ، يَكُونُ مُتَعَدِّيهِ عَاصِيًا إِنْ شَهِدَ الصَّلَاةَ جَمَاعَةً فِي الْمَطَرِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو ہم پر بارش ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص چاہے وہ اپنے خیمے میں نمازپڑھ لے۔“
1104. اندھیری اور بارش والی رات میں نماز کے لئے مسجد میں آنے کا بیان اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اس قسم کی رات میں خیموں میں نماز پڑھنے کا حُکم اباحت و جواز کے لئے ہے، واجب نہیں ہے
والدليل على ان الامر بالصلاة في الرحال في مثل تلك الليلة امر إباحة له لا حتم. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْأَمْرَ بِالصَّلَاةِ فِي الرِّحَالِ فِي مِثْلِ تِلْكَ اللَّيْلَةِ أَمْرُ إِبَاحَةٍ لَهُ لَا حَتْمٌ.
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو میں نے (دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم، اگر میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں (حصول علم کے لئے) حاضر ہو جاؤں تو بہت بہتر ہو گا۔ لہٰذا میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اُنہوں نے عراجین کھجور کی شاخوں کے قصّے کے بارے میں ایک طویل حدیث بیان کی۔ اُنہوں نے فرمایا، پھر اُس رات بادل خوب امنڈ آیا (اور خوب بارش برسی)۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے تو بجلی چمکی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو پوچھا: ”اے قتادہ، ایسی رات میں کیسے چل کر آئے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، مجھے معلوم تھا کہ آج رات نمازی کم ہوں گے اس لئے میں نے پسند کیا کہ میں نماز جماعت کے ساتھ ادا کروں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھ لو تو ٹھہرے رہنا حتّیٰ کہ میں تمہیں جانے کی اجازت دے دوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمّل کرلی تو سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کو کجھور کی ایک شاخ عنایت کی اور فرمایا: ”یہ شاخ لے لو، تمہارے آگے اور پیچھے دس دس (ہاتھ) روشن کر دے گی۔ پھر جب تم اپنے گھر داخل ہو جاؤ اور گھر کے ایک کونے میں سایہ دیکھو تو گفتگو کرنے سے پہلے اُسے مارنا کیونکہ وہ شیطان ہے۔“ راوی کہتے ہیں کہ تو اُنہوں نے ایسے ہی کیا - اس لئے ہم بھی اُن شاخوں کو پسند کرتے ہیں۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر فرمایا: ”جس شخص نے اس پودے یعنی لہسن سے کھایا ہو تو وہ مسجد میں ہر گز نہ آئے -“ جناب عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اس پودے سے کھایا ہو وہ مسجدوں کے قریب ہرگز نہ جائے۔“
حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص اس سبزی میں سے کھا لے تو وہ ہمیں ہماری اس مسجد میں اس (کی بُو) کے ساتھ اذیت نہ دے۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس شخص نے قبلہ رخ تُھوکا تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کا تُھوک اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لگا ہوگا اور جس شخص نے اس بدبُو دار سبزی میں سے کھایا ہو تو وہ تین دن تک ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔“