إذا كان ساكتا عن الجهر بالقول إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد كان داعيا خفيا في سكته عن الجهر بين التكبيرة الاولى، وبين القراءة. إِذَا كَانَ سَاكِتًا عَنِ الْجَهْرِ بِالْقَوْلِ إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ دَاعِيًا خَفِيًّا فِي سَكْتِهِ عَنِ الْجَهْرِ بَيْنَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، وَبَيْنَ الْقِرَاءَةِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں تکبیر (اولیٰ) کہہ لیتے تو تکبیر اور قراءت کے درمیان خاموش ہو جاتے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بتائیں کہ تکبیر اور قراءت کے درمیان آپ کا خا موشی اختیار کر نا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ دعا پڑھتا ہوں «اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ» ”اے میرے اللہ، میرے گناہوں اور میرے درمیان ایسی ہی دوری کردے جیسی تُو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے۔ اے میرے اللہ، مجھے میرے گناہوں سے اسی طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل سے پاک ہو جاتا ہے۔ اے میرے اللہ، مجھے میری خطاؤں سے برف، پانی اور اولوں کے ساتھ دھو دے۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اور نماز ظہر کی پہلی رکعت کو طویل کیا کرتے تھے۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ آپ یہ کام اس لئے کرتے تھے تاکہ لوگ (نماز میں) شریک ہو جائیں۔
1039. امام کے پیچھے قراءت کرنے کا بیان اگرچہ امام جہری قراءت کر رہا ہو۔ جب امام جہری قراءت کررہا ہو تو مقتدی کے لئے سورة الفاتحة سے زائد قراءت کرنا منع ہے
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی تو آپ کے لئے قراءت کرنا بھاری اور مشکل ہوگیا۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: ”یقیناً میرا خیال ہے کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ کہتے ہیں، ہم نے جواب دیا کہ جی ہاں، اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول (ہم تیزی سے قراءت کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم اُم الکتاب کے سوا قراءت نہ کیا کرو کیونکہ جو شخص سورة الفاتحة کی قرأت نہیں کرتا اس کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ یہ حدیث ابن علیہ اور عبد الاعلیٰ کی ہے۔
1040. جس نماز میں امام جہری قراءت کررہا ہو، اس میں امام کے سورة الفاتحة کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد مقتدی آمین کہے گا، اگرچہ امام بھولنے یا جہالت کی وجہ سے آمین نہ کہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (نماز کی) تعلیم دیتے ہوئے فرماتے تھے: ”جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» پڑھے تو تم آمین کہو -“
إذا امن إمامه رجاء مغفرة ما تقدم من ذنب المؤمن إذا وافق تامينه الملائكة مع الدليل على ان على الإمام الجهر بالتامين إذا جهر بالقراءة ليسمع الماموم تامينه، إذ غير جائز ان يامر النبي صلى الله عليه وسلم الماموم بالتامين إذا امن إمامه، ولا سبيل له إلى معرفة تامين الإمام إذا اخفى الإمام التامين. إِذَا أَمَّنَ إِمَامُهُ رَجَاءَ مَغْفِرَةِ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِ الْمُؤْمِنِ إِذَا وَافَقَ تَأْمِينُهُ الْمَلَائِكَةَ مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ عَلَى الْإِمَامِ الْجَهْرَ بِالتَّأْمِينِ إِذَا جَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ لِيُسْمِعَ الْمَأْمُومَ تَأْمِينَهُ، إِذْ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَأْمُرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَأْمُومَ بِالتَّأْمِينِ إِذَا أَمَّنَ إِمَامُهُ، وَلَا سَبِيلَ لَهُ إِلَى مَعْرِفَةِ تَأْمِينِ الْإِمَامِ إِذَا أَخْفَى الْإِمَامُ التَّأْمِينَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے ہوئے سنا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ لہٰذا جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔“
جناب حطان بن عبداللہ الرقاشی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو ہمیں ہماری سنّتیں بیان کیں اور ہمیں ہماری نماز سکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ » پڑھے تو تم آمین کہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔“ امام ابوبکر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق مقتدی کے امام کے سورة الفاتحة کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد آمین کہنے سے ہے۔ اگرچہ امام جہالت یا بھول جانے کی وجہ سے آمین نہ کہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے کہا: «السَّامُ عَلَيْكَ» ”آپ کو موت آجائے“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے جواب دیا: «وَعَلَيْكَ» ”اور تمہیں بھی موت آجائے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بولنے کا ارادہ کیا پھر میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندگی کو بھانپتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ پھر ایک اور یہودی آیا اور اُس نے بھی آکر کہا کہ «السَّامُ عَلَيْكَ» ”آپ پر موت طاری ہو“ آپ نے جواباً کہا «وَعَلَيْكَ» ”اور تم پر بھی۔“ میں نے پھر کلام کرنے کا ارادہ کیا مگر میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا پسنددیدگی جان لی (اس لئے خاموش رہی)۔ پھر تیسرا آیا تو اُس نے بھی کہا کہ «السَّامُ عَلَيْكَ» ” آپ پر موت واقع ہو“ مجھ سے (اس بار) صبر نہ ہو سکا تو میں نے جواب دیا کہ اور تم پر موت واقع ہو۔ خنازیر اور بندروں کے بھائیوں پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہو۔ کیا تم اللہ کے رسول کو اس طریقے سے سلام کرتے ہو جس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کرنا نہیں سکھایا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناًً اللہ تعالیٰ بدکلامی اور عملاً فحش گوئی کر نے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ان یہودیوں نے ایک بات کی تھی تو ہم نے بھی انہیں جواب دے دیا تھا۔ بلاشبہ یہودی بہت حاسد قوم ہے اور وہ جس قدر ہمارے (آپس میں) سلام کرنے اور آمین کہنے پر حسد کرتے ہیں، اس قدر ہماری کسی اور چیز پر حسد نہیں کرتے۔“
فلم يعطه احدا من النبيين قبله، خلا هارون حين دعا موسى، فامن هارون، إن ثبت الخبر.فَلَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا مِنَ النَّبِيِّينَ قَبْلَهُ، خَلَا هَارُونَ حِينَ دَعَا مُوسَى، فَأَمَّنَ هَارُونُ، إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ.
آپ سے پہلے کسی نبی کو یہ خصوصیت عطا نہیں فرمائی۔ صرف حضرت ہارون علیہ السلام کو عطا کی تھی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے آمین کہی تھی۔ بشرطیکہ اس سلسلے میں مروی روایت صحیح ہو