سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی، اُس کی تنہا نماز سے پچیس گنا فضیلت والی ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ اس جنس سے تعلق رکھتے ہیں جس کے متعلق میں کتاب الایمان میں بیان کرچکا ہوں کہ عرب جب کسی اجزاء اور شاخوں والی چیز کا عدد بیان کرتے ہیں تو اس سے اُن کی مراد اس عدد سے زائد کی نفی کرنا نہیں ہوتا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ” پچیس گنا“ سے آپ کی مراد یہ نہیں کہ باجماعت نماز کا ثواب اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ہماری اس تاویل وتفسیر کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی اُس کی تنہا نماز کی ادائیگی سے ستائیس گنا فضیلت رکھتی ہے۔“
موه بجهله على بعض الغباء، احتجاجا لمقالته هذه انه إذا خاطبهم بكلام مجمل فقد خاطبهم بما لم يفدهم معنى، زعم مَوَّهَ بِجَهْلِهِ عَلَى بَعْضِ الْغَبَاءِ، احْتِجَاجًا لِمَقَالَتِهِ هَذِهِ أَنَّهُ إِذَا خَاطَبَهُمْ بِكَلَامٍ مُجْمَلٍ فَقَدْ خَاطَبَهُمْ بِمَا لَمْ يُفِدْهُمْ مَعْنًى، زَعَمَ
اس نے اپنے اس قول کے ذریعے سے بعض بیوقوف لوگوں پر اپنی جہالت کے ساتھ حق کو چھپا دیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمّت کو مجمل کلام کے ساتھ خطاب کریں گے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بے فائدہ خطاب کیا، یہ اس شخص کا گمان و خیال ہے
سیدنا ابوہریرہ ہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی اُس کے لئے اکیلے نماز پڑھنے سے بیس سے زیادہ درجے افضل ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ لفظ ”بضع“ مجمل ہے۔ کیونکہ ”بضع“ کا اطلاق تین سے لیکر دس تک کے عدد پر ہوتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں بیان فرمایا کہ نماز باجماعت پچیس گنا افضل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ پچیس گنا سے زیادہ افضل نہیں ہوسکتی - اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں بتایا کہ نماز باجماعت ستائیس درجے افضل ہوتی ہے ـ
والبيان ان صلاة الفجر في الجماعة افضل من صلاة العشاء في الجماعة، وان فضلها في الجماعة ضعفي فضل العشاء في الجماعة وَالْبَيَانِ أَنَّ صَلَاةَ الْفَجْرِ فِي الْجَمَاعَةِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فِي الْجَمَاعَةِ، وَأَنَّ فَضْلَهَا فِي الْجَمَاعَةِ ضِعْفَيْ فَضْلِ الْعِشَاءِ فِي الْجَمَاعَةِ
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اُس نے آدھی رات نماز تہجّد ادا کی۔ اور جس شخص نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی تو گویا اُس نے ساری رات تہجّد ادا کی۔“
سیدنا ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں روایت بیان کرتے ہیں «إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا» (سورة الإسراء: 78)”بیشک فجر کی نماز (فرشتوں کے) حاضر ہونے کا وقت ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نماز میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے اکھٹے حاضر ہوتے ہیں۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے کتاب الصلاۃ کے شروع میں نماز فجر اور عصر میں دن اور رات کے فرشتوں کے جمع ہونے کے متعلق روایت لکھوائی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو نماز عشاء اور صبح کی نماز کا اجر و ثواب معلوم ہو جائے تو وہ اُن میں ضرور حاضر ہوں اگر چہ اُنہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔“
جناب ابوبصیر بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منوّرہ آیا تو میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا اور عرض کی کہ اے ابومنذر مجھے کوئی ایسی پسندیدہ ترین حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز فجر پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر پوچھا: ”کیا فلاں شخص موجود ہے؟“ ہم نے جواب دیا کہ نہیں، اور وہ نماز میں حاضر نہیں ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا فلاں شخص حاضر ہوا ہے؟“ ہم نے جواب دیا کہ نہیں، اور وہ نماز میں حاضرنہیں ہواتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ منافقین پر سب سے بھاری نماز، نمازعشاء اور نماز فجر ہے۔ اور اگر وہ ان دونوں کے اجر وثواب کو جان لیں تو وہ ان میں ضرور حاضر ہوں اگرچہ اُنہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کرآنا پڑے، بیشک پہلی صف فرشتوں کی صف جیسی (فضیلت والی) ہے۔ اور اگر تمہیں اس کی فضیلت معلوم ہو جائے تو تم اس کے لئے دوڑتے ہوئے آؤ۔ اور یقیناًً تمہاری ایک ساتھی کے ساتھ نماز تمہارے اکیلے کی نماز سے بہتر ہے۔ اور تمھارا دو آدمیوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا ایک آدمی کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے سے افضل و بہتر ہے۔ اور جو نماز زیادہ تعداد والی ہوگی تو وہ اللہ تعالیٰ کو اتنی ہی زیادہ محبوب ہوگی۔“