صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
عیدالفطر، عیدالاضحٰی اور جو اُن میں جو ضروری سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
حدیث نمبر: 1464
Save to word اعراب
نا ابو موسى ، نا عبد الرحمن ، نا إسرائيل ، عن عثمان بن المغيرة ، عن إياس بن ابي رملة ، انه شهد معاوية ، وسال زيد بن ارقم : شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عيدين اجتمعا في يوم؟ قال: نعم، صلى العيد في اول النهار، ثم رخص في الجمعة، فقال:" من شاء ان يجمع فليجمع" نَا أَبُو مُوسَى ، نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، نَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ ، أَنَّهُ شَهِدَ مُعَاوِيَةَ ، وَسَأَلَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ : شَهِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدَيْنِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، صَلَّى الْعِيدَ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، فَقَالَ:" مَنْ شَاءَ أَنْ يَجْمَعَ فَلْيَجْمَعْ"
جناب ایاس بن ابی رملہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت معاویہ کے پاس حاضر تھے تو اُنہوں نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی دن میں دو عیدوں (عید اور جمعہ) میں شریک ہوئے ہو؟ اُنہوں نے فرمایا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے شروع میں عید کی نماز پڑھائی پھر آپ نے نماز جمعہ کی رخصت دے دی اور فرمایا: جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔

تخریج الحدیث: صحيح
947. (714) بَابُ الرُّخْصَةِ لِلْإِمَامِ إِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدَانِ وَالْجُمُعَةُ أَنْ يُعِيدَ بِهِمْ وَلَا يُجَمِّعَ بِهِمْ،
947. جب عید اور جمعہ جمع ہوجائیں تو امام کو رخصت ہے کہ وہ لوگوں کو عید پڑھا دے اور جمعہ نہ پڑھائے،
حدیث نمبر: Q1465
Save to word اعراب
إن كان ابن عباس اراد بقوله اصاب ابن الزبير السنة، سنة النبي صلى الله عليه وسلمإِنْ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَرَادَ بِقَوْلِهِ أَصَابَ ابْنُ الزُّبَيْرِ السُّنَّةَ، سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
پشرطیکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اپنے اس فرمان ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے سنّت کو پالیا ہے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہو

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1465
Save to word اعراب
نا بندار ، نا يحيى ، نا عبد الحميد بن جعفر ، ح، وحدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، نا يحيى ، عن عبد الحميد بن جعفر ، ح وحدثنا احمد بن عبدة ، اخبرنا سليم يعني ابن اخضر ، حدثنا عبد الحميد بن جعفر الانصاري من بني عوف بن ثعلبة، قال: حدثني وهب بن كيسان ، قال: شهدت ابن الزبير بمكة وهو امير فوافق يوم فطر او اضحى يوم الجمعة فاخر الخروج حتى ارتفع النهار فخرج وصعد المنبر، فخطب واطال، ثم صلى ركعتين، ولم يصل الجمعة فعاب عليه ناس من بني امية ابن عبد شمس، فبلغ ذلك ابن عباس، فقال: اصاب ابن الزبير السنة ، وبلغ ابن الزبير، فقال:" رايت عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه إذا اجتمع عيدان صنع مثل هذا"، هذا لفظ حديث احمد بن عبدة، قال ابو بكر: قول ابن عباس اصاب ابن الزبير السنة، يحتمل ان يكون اراد سنة النبي صلى الله عليه وسلم، وجائز ان يكون اراد سنة ابي بكر، او عمر، او عثمان، او علي، ولا اخال انه اراد به اصاب السنة في تقديمه الخطبة قبل صلاة العيد، لان هذا الفعل خلاف سنة النبي صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وعمر، وإنما اراد تركه ان يجمع بهم بعدما قد صلى بهم صلاة العيد فقط دون تقديم الخطبة قبل صلاة العيدنَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى ، نَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، ح، وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، نَا يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمٌ يَعْنِي ابْنَ أَخْضَرَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ الأَنْصَارِيُّ مِنْ بَنِي عَوْفِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ ، قَالَ: شَهِدْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ وَهُوَ أَمِيرٌ فَوَافَقَ يَوْمُ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَأَخَّرَ الْخُرُوجَ حَتَّى ارْتَفَعَ النَّهَارُ فَخَرَجَ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَ وَأَطَالَ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَلَمْ يُصَلِّ الْجُمُعَةَ فَعَابَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ ابْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَصَابَ ابْنُ الزُّبَيْرِ السُّنَّةَ ، وَبَلَغَ ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ:" رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ إِذَا اجْتَمَعَ عِيدَانِ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا"، هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَصَابَ ابْنُ الزُّبَيْرِ السُّنَّةَ، يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَائِزٌ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ سُنَّةَ أَبِي بَكْرٍ، أَوْ عُمَرَ، أَوْ عُثْمَانَ، أَوْ عَلِيٍّ، وَلا أَخَالُ أَنَّهُ أَرَادَ بِهِ أَصَابَ السُّنَّةَ فِي تَقْدِيمِهِ الْخُطْبَةَ قَبْلَ صَلاةِ الْعِيدِ، لأَنَّ هَذَا الْفِعْلَ خِلافُ سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَإِنَّمَا أَرَادَ تَرْكَهُ أَنْ يَجْمَعَ بِهِمْ بَعْدَمَا قَدْ صَلَّى بِهِمْ صَلاةَ الْعِيدِ فَقَطْ دُونَ تَقْدِيمِ الْخُطْبَةِ قَبْلَ صَلاةِ الْعِيدِ
حضرت وہب بن کیسان بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکّہ مکرّمہ میں حاضر تھا جب وہ امیر تھے تو عید الفطر یا عید الاضحیٰ جمعہ کے دن آگئئ تو اُنہوں نے (عید کے لئے) نکلنے میں تاخیر کی حتّیٰ کہ دن چڑھ گیا، پھر وہ باہر نکلے اور منبر پر تشریف فرما ہوکر بڑاطویل خطبہ دیا۔ پھر اُنہوں نے دو رکعات پڑھائیں اور نماز جمعہ نہیں پڑھائی، پس بنی امیہ بن عبد شمس کے کچھ لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا اور اُن پر عیب لگایا، سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سنّت کو پالیا ہے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ جب دو عیدیں (عید اور جمعہ) جمع ہو جاتیں تو وہ اسی طرح کرتے تھے۔ یہ جناب احمد بن عبدہ کی حدیث ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فر ماتے ہیں کہ سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سنّت کو پالیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اُنہوں نے سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کی مردایہ ہو کہ سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان یا علی رضی اللہ عنہم کے طریقے کو اُنہوں نے پالیا ہے۔ اور میرا خیال نہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ دینے کو اُنہوں نے سنّت کو پا لیا، قرار دیا ہو کیونکہ یہ کام سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے طریقے کے خلاف ہے۔ بلکہ ان کی مراد صرف جمعہ نہ پڑھانا تھا۔ جبکہ اُنہوں نے لوگوں کو نماز عید پڑھا دی تھی۔ اُن کی مراد نماز عید سے پہلے خطبہ دینا نہ تھی۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
948. (715) بَابُ إِبَاحَةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ، وَإِنْ كُنَّ أَبْكَارًا ذَوَاتِ خُدُورٍ حُيَّضًا كُنَّ أَوْ أَطْهَارًا
948. عورتوں کا نماز عیدین کے لئے نکلنا جائز ہے اگرچہ وہ کنوریاں، پردہ نشین، حائضہ ہوں یا پاکیزہ
حدیث نمبر: 1466
Save to word اعراب
نا ابو هاشم زياد بن ايوب ، نا إسماعيل بن علية ، نا ايوب ، عن حفصة ، قالت: كنا نمنع عواتقنا ان يخرجن، فقدمت امراة، فنزلت قصر بني خلف، فحدثت ان اختها كانت تحت رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اثنتي عشرة غزوة، كانت اختي معه في ست غزوات، قالت: كنا نداوي الكلمى، ونقوم على المرضى، فسالت اختي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: هل على إحدانا باس إن لم يكن لها جلباب ان لا تخرج؟ قال:" لتلبسها صاحبتها من جلبابها، ولتشهد الخير، ودعوة المؤمنين" فلما قدمت فلما قدمت ام عطية سالتها او سالناها، فقلنا: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كذا وكذا، وكانت لا تذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا قالت: بابي. فقالت: نعم، بابي. قال:" لتخرج العواتق ذوات الخدور، او العواتق وذوات الخدور، والحيض فيشهدن الخير ودعوة المؤمنين، وتعتزل الحائض المصلى" ، قلت لام عطية: الحائض؟ قالت: اليست تشهد عرفة، وتشهد كذا، وتشهد كذا؟نَا أَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، نَا أَيُّوبُ ، عَنْ حَفْصَةَ ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ، فَقَدِمَتِ امْرَأَةٌ، فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَحَدَّثَتْ أَنَّ أُخْتَهَا كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، كَانَتْ أُخْتِي مَعَهُ فِي سِتِّ غَزَوَاتٍ، قَالَتْ: كُنَّا نُدَاوِي الْكَلْمَى، وَنَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى، فَسَأَلَتْ أُخْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: هَلْ عَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لا تَخْرُجَ؟ قَالَ:" لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا، وَلْتَشْهَدِ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ" فَلَمَّا قَدِمَتْ فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ سَأَلْتُهَا أَوْ سَأَلْنَاهَا، فَقُلْنَا: سَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، وَكَانَتْ لا تَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلا قَالَتْ: بِأَبِي. فَقَالَتْ: نَعَمْ، بِأَبِي. قَالَ:" لِتَخْرُجِ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ، أَوِ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ، وَالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ، وَتَعْتَزِلُ الْحَائِضُ الْمُصَلَّى" ، قُلْتُ لأُمِّ عَطِيَّةَ: الْحَائِضُ؟ قَالَتْ: أَلَيْسَتْ تَشْهَدُ عَرَفَةَ، وَتَشْهَدُ كَذَا، وَتَشْهَدُ كَذَا؟
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو (عید کے لئے) نکلنے سے منع کرتی تھیں۔ ایک خاتون آئیں اور بنی خلف کے محل میں اُتریں، اُس نے بیان کیا کہ اُس کی بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کی بیوی تھی، جس صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی، میری بہن چھ غزوات میں اُن کے ساتھ تھی، وہ فرماتی ہیں کہ ہم زخمیوں کا علاج کرتی تھیں اور بیماروں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم میں سے کسی عورت کو گناہ ہو گا اگر وہ چادر نہ ہونے کی وجہ سے نکل نہ سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی سہیلی کو چاہیے کہ وہ اُسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر اوڑھنے کے لئے دے دے اور وہ نیکی کے کام اور مؤمنوں کی دعا میں شریک ہو جائے۔ پھر جب سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو میں نے اُن سے پوچھا یا ہم نے اُن سے پوچھا، ہم نے کہا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ایسے فرماتے ہوئے سنا ہے؟ سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویاد کرتیں تو کہتیں کہ میرا باپ آپ پر قربان۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، میرا باپ آپ پر قربان ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: نوجوان، پردہ نشین عورتوں یا نوجوان اور پردہ نشین عورتوں اور حائضہ عورتوں کو (عید کے لئے) نکلنا چاہئے۔ وہ خیر و بھلائی کے کاموں میں شریک ہوں اور مؤمنوں کی دعا میں حاضر ہوں لیکن حائضہ نمازگاہ سے الگ رہے، میں نے اُم عطیہ کو کہا تو کیا حائضہ بھی جائے گی؟ اُنہوں نے جواب دیا کیا حائضہ میدان عرفات میں (حج کے لئے) حاضری نہیں دیتی اور کیا وہ فلاں فلاں کام میں شریک نہیں ہوتی؟ کیا وہ فلاں فلاں مقام پر حاضر نہیں ہوتی؟

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
949. (716) بَابُ الْأَمْرِ بِاعْتِزَالِ الْحَائِضِ إِذَا شَهِدَتِ الْعِيدَ،
949. حائضہ عورت جب عید میں حاضر ہو تو عید گاہ سے الگ رہنے کا حُکم کا بیان
حدیث نمبر: Q1467
Save to word اعراب
والدليل على انها إنما امرت بالخروج لمشاهدة الخير ودعوة المسلمينوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّهَا إِنَّمَا أُمِرَتْ بِالْخُرُوجِ لِمُشَاهَدَةِ الْخَيْرِ وَدَعْوَةِ الْمُسْلِمِينَ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اُسے صرف خیر و بھلائی کے مشاہدے اور مسلمانوں کی دعا میں شرکت کے لئے نکلنے کا حُکم دیا گیا ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1467
Save to word اعراب
نا علي بن مسلم ، نا هشيم ، اخبرنا منصور وهو ابن زاذان ، عن ابن سيرين ، عن ام عطية ، وهشام ، عن ابن سيرين ، وحفصة ، عن ام عطية : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج الابكار، العواتق، ذوات الخدور، والحيض يوم العيد، فاما الحيض فيعتزلن المصلى، ويشهدن الخير ودعوة المسلمين، فقالت إحداهن: فإن لم يكن لإحدانا جلباب؟ قال:" فلتعرها اختها من جلابيبها" نَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ ، نَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، وَهِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، وَحَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُخْرِجُ الأَبْكَارَ، الْعَوَاتِقَ، ذَوَاتَ الْخُدُورِ، وَالْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّى، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لإِحْدَانَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ:" فَلْتُعِرْهَا أُخْتُهَا مِنْ جَلابِيبِهَا"
سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری نوجوان پردہ نشین لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو عید والے دن (عید گاہ کی طرف) نکالا کرتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے الگ رہتی تھیں اور خیر و بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوتی تھیں۔ اُن میں سے کسی عورت نے پوچھا، اگر ہم میں سے کسی ایک کے پاس چادر نہ ہو تو (وہ کیا کرے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس کی بہن اپنی چادروں میں سے ایک چادراُسے عاریتاً دے دے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
950. (717) بَابُ اسْتِحْبَابِ الرُّجُوعِ مِنَ الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ الطَّرِيقِ الَّذِي أَتَى فِيهِ الْمُصَلِّي
950. عید گاہ سے واپس آتے ہوئے دوسرے راستے سے آنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1468
Save to word اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لئے تشریف لے جاتے تو واپسی پر وہ راستہ بدل کر دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔

تخریج الحدیث: صحيح
951. (718) بَابُ اسْتِحْبَابِ الصَّلَاةِ فِي الْمَنْزِلِ بَعْدَ الرُّجُوعِ مِنَ الْمُصَلَّى
951. عید گاہ سے واپس آکر گھر میں نفل نماز ادا کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1469
Save to word اعراب
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر والے دن کچھ کھائے بغیر (عید گاہ کی طرف) نہیں جاتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے تو لوگوں کو دو رکعات پڑھاتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر واپس تشریف لاتے تو اپنے گھر میں دو رکعات ادا فرماتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے کوئی نماز (نفل) نہیں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن

Previous    2    3    4    5    6    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.