جناب ایاس بن ابی رملہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت معاویہ کے پاس حاضر تھے تو اُنہوں نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی دن میں دو عیدوں (عید اور جمعہ) میں شریک ہوئے ہو؟ اُنہوں نے فرمایا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے شروع میں عید کی نماز پڑھائی پھر آپ نے نماز جمعہ کی رخصت دے دی اور فرمایا: ”جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔“
إن كان ابن عباس اراد بقوله اصاب ابن الزبير السنة، سنة النبي صلى الله عليه وسلمإِنْ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَرَادَ بِقَوْلِهِ أَصَابَ ابْنُ الزُّبَيْرِ السُّنَّةَ، سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
پشرطیکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اپنے اس فرمان ”ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے سنّت کو پالیا ہے“ سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہو
حضرت وہب بن کیسان بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکّہ مکرّمہ میں حاضر تھا جب وہ امیر تھے تو عید الفطر یا عید الاضحیٰ جمعہ کے دن آگئئ تو اُنہوں نے (عید کے لئے) نکلنے میں تاخیر کی حتّیٰ کہ دن چڑھ گیا، پھر وہ باہر نکلے اور منبر پر تشریف فرما ہوکر بڑاطویل خطبہ دیا۔ پھر اُنہوں نے دو رکعات پڑھائیں اور نماز جمعہ نہیں پڑھائی، پس بنی امیہ بن عبد شمس کے کچھ لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا اور اُن پر عیب لگایا، سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سنّت کو پالیا ہے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ جب دو عیدیں (عید اور جمعہ) جمع ہو جاتیں تو وہ اسی طرح کرتے تھے۔ یہ جناب احمد بن عبدہ کی حدیث ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فر ماتے ہیں کہ ”سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سنّت کو پالیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اُنہوں نے سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کی مردایہ ہو کہ سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان یا علی رضی اللہ عنہم کے طریقے کو اُنہوں نے پالیا ہے۔ اور میرا خیال نہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ دینے کو اُنہوں نے سنّت کو پا لیا، قرار دیا ہو کیونکہ یہ کام سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے طریقے کے خلاف ہے۔ بلکہ ان کی مراد صرف جمعہ نہ پڑھانا تھا۔ جبکہ اُنہوں نے لوگوں کو نماز عید پڑھا دی تھی۔ اُن کی مراد نماز عید سے پہلے خطبہ دینا نہ تھی۔
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو (عید کے لئے) نکلنے سے منع کرتی تھیں۔ ایک خاتون آئیں اور بنی خلف کے محل میں اُتریں، اُس نے بیان کیا کہ اُس کی بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کی بیوی تھی، جس صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی، میری بہن چھ غزوات میں اُن کے ساتھ تھی، وہ فرماتی ہیں کہ ہم زخمیوں کا علاج کرتی تھیں اور بیماروں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم میں سے کسی عورت کو گناہ ہو گا اگر وہ چادر نہ ہونے کی وجہ سے نکل نہ سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی سہیلی کو چاہیے کہ وہ اُسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر اوڑھنے کے لئے دے دے اور وہ نیکی کے کام اور مؤمنوں کی دعا میں شریک ہو جائے۔“ پھر جب سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو میں نے اُن سے پوچھا یا ہم نے اُن سے پوچھا، ہم نے کہا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ایسے فرماتے ہوئے سنا ہے؟ سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویاد کرتیں تو کہتیں کہ میرا باپ آپ پر قربان۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، میرا باپ آپ پر قربان ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”نوجوان، پردہ نشین عورتوں یا نوجوان اور پردہ نشین عورتوں اور حائضہ عورتوں کو (عید کے لئے) نکلنا چاہئے۔ وہ خیر و بھلائی کے کاموں میں شریک ہوں اور مؤمنوں کی دعا میں حاضر ہوں لیکن حائضہ نمازگاہ سے الگ رہے، میں نے اُم عطیہ کو کہا تو کیا حائضہ بھی جائے گی؟ اُنہوں نے جواب دیا کیا حائضہ میدان عرفات میں (حج کے لئے) حاضری نہیں دیتی اور کیا وہ فلاں فلاں کام میں شریک نہیں ہوتی؟ کیا وہ فلاں فلاں مقام پر حاضر نہیں ہوتی؟
سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری نوجوان پردہ نشین لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو عید والے دن (عید گاہ کی طرف) نکالا کرتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے الگ رہتی تھیں اور خیر و بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوتی تھیں۔ اُن میں سے کسی عورت نے پوچھا، اگر ہم میں سے کسی ایک کے پاس چادر نہ ہو تو (وہ کیا کرے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُس کی بہن اپنی چادروں میں سے ایک چادراُسے عاریتاً دے دے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لئے تشریف لے جاتے تو واپسی پر وہ راستہ بدل کر دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر والے دن کچھ کھائے بغیر (عید گاہ کی طرف) نہیں جاتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے تو لوگوں کو دو رکعات پڑھاتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر واپس تشریف لاتے تو اپنے گھر میں دو رکعات ادا فرماتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے کوئی نماز (نفل) نہیں پڑھتے تھے۔