سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں عیدوں کی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں کہتے اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے۔
سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عیدین میں کون سی (سورتیں) تلاوت کی تھیں؟ میں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ القمر «اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ» اور سورۃ ق «ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ» کی تلاوت کی تھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق اس روایت کو صرف فلیح بن سلیمان نے مسند بیان کیا ہے ـ اس روایت کو امام مالک اور ابن عیینہ نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا تو کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا۔
وفي خبر النعمان بن بشير، وسمرة بن جندب ان النبي صلى الله عليه وسلم" قرا بـ: سبح اسم ربك الاعلى و هل اتاك حديث الغاشية" وهذا من اختلاف المباحوَفِي خَبَرِ النُّعْمَانِ بْنِ بِشِيرٍ، وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَرَأَ بِـ: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى وَ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ" وَهَذَا مِنَ اخْتِلافِ الْمُبَاحِ
سیدنا نعمان بن بشیر اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما کی روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز عیدین میں) سورۃ الأعلى «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» اور سورة الغاشية ( «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» کی قراءت کی۔ اور یہ (مختلف قراءت) جائز اختلاف کی قسم سے ہے۔
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمّل کرکے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے بعد میں اس روایت کو مکمّل بیان کیا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (عید والے دن) نماز کے بعد خطبہ دیتے تھے۔ جناب حماد بن مسعدہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ یعنی عید والے دن (نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرماتے تھے)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر والے دن کھڑے ہوئے تو آپ نے نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے نماز سے ابتداء کی، پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا، جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو (منبرسے) نیچے اُترے اور عورتوں کے پاس تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اس حال میں وعظ ونصیحت فرمائی کہ آپ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلایا ہوا تھا، عورتیں اس میں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا ء سے پو چھا کیا وہ صدقہ فطر ادا کررہی تھیں؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ اُس وقت عام صدقہ کر رہی تھیں۔ عورتیں اپنی پازیب اور کنگن وغیرہ (سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی چادر میں) ڈال رہیں تھیں۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید والے دن اپنی سواری پر خطبہ ارشاد فرمایا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس لفظ کے دو معنی ہو سکتے ہیں کہ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا، بیٹھ کر خطبہ نہیں دیا۔ دوسرا معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر خطبہ دیا (منبر پر نہیں دیا) جیسا کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے مروان کو (عیدگاہ کی طرف) منبر نکالنے پر روکا تھا اور اُس سے فرمایا تھا کہ (عہد نبوی میں) منبر نہیں نکالا جاتا تھا۔
سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو خطبے ارشاد فرماتے تھے اور ان دونوں کے درمیان بیٹھ کر فاصلہ اور جدائی کرتے تھے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ والے دن کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر بیٹھ گئے اور آپ نے کوئی بات چیت نہیں کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے۔ لہٰذا جو شخص تمہیں بیان کرے کہ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے تو اُس نے جھوٹ کہا ہے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبوں کے درمیان بیٹھ جاتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ میں) قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے تھے، اور آپ کا خطبہ درمیانہ ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی ہوتی تھی۔ جناب حسن کی روایت میں ہے کہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں منبر پر قرآن مجید کی آیات پڑھتے تھے۔