سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ کی طرف نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کو پلٹا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ حدیث کے راوی ابوبکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عباد بن تمیم سے کہا، آپ ہمیں بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کے اوپر والے حصّے کو نیچے کیا تھا یا اس کے نیچے والے حصّے کو اوپر کیا تھا، یا اُسے کیسے پلٹا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں جانب کو بائیں جانب اور بائیں جانب کو دائیں جانب کیا تھا۔
901. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کو پلٹتے وقت دائیں جانب کو بائیں طرف اور بائیں جانب کو دائیں طرف اس لئے کیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر بھاری تھی تو آپ کے لئے اس کے اوپر والے حصّے کو نیچے کرنا مشکل ہوگیا تھا
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک سیاہ دھاری دار چادر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نچلے حصّے سے پکڑ کر اُسے اوپر کرنے کا ارادہ کیا لیکن جب وہ آپ پر بھاری ہوگئی (اور آپ ارادے کے مطابق اس کو اوپر نیچے نہ کر سکے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے کندھوں پر ہی پلٹ لیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قحط سالی کی وجہ سے روتی ہوئی خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی «اللَٰهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيئًا مُرِيعًا، عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ، نَافِعًا غَيْرَ ضَارَّ» ”اے اللہ ہمیں ایسی بارش عطا فرما جو ہمارے لئے معاون ومددگار ہو جو خوشگوار اور سبزہ و شادابی لانے والی ہو، جلد آنے والی ہو نہ کہ تاخیر سے آنے والی، جو نفع مند ہو، نقصان دہ نہ ہو۔“ لہٰذا اُن پر موسلادھار بارش برسی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی «اللَٰهُمَّ اسْقِنَا» ”اے اللہ ہمیں پانی سے سیراب فرما۔“
قال ابو بكر في خبر يونس ومعمر، عن الزهري: صلى ركعتين"قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي خَبَرِ يُونُسَ وَمَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ: صَلَّى رَكْعَتَيْنِ"
امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جناب یونس اور معمر کی امام زہری سے بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھائی تھیں۔
قال ابو بكر: في خبر الثوري، عن هشام بن إسحاق، فقال: كما يصلي في العيدينقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ إِسْحَاقَ، فَقَالَ: كَمَا يُصَلِّي فِي الْعِيدَيْنِ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام ثوری کی ہشام بن اسحاق کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جس طرح آپ عیدین کی نماز پڑھتے تھے۔ (اسی طرح استسقاء میں بھی تکبیرات پڑھی جائیں گی۔)
جناب اسحاق بن عبداللہ سے روایت ہے کہ مدینہ منوّرہ کے گورنر جناب ولید بن عتبہ نے اُنہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور اُنہیں کہا کہ اے میرے بھتیجے، اُن سے پوچھ کر آؤ کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ساتھ لیکر بارش کی دعا کی تھی اُس دن آپ نے (دعا اور نماز) استسقاء میں کیسے عمل کیا تھا؟ جناب اسحاق فرماتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کی کہ اے ابوالعباس، جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی دعا کی تھی اُس روز آپ نے دعا اور نماز استسقاء میں کیسے عمل کیا تھا؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اُس روز) نہایت عاجزی اور سادگی کے ساتھ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء میں اسی طرح کیا جیسے آپ نماز عیدالفطر اور عید الاضحٰی میں کرتے تھے۔
والدليل على ضد قول من زعم من التابعين ان صلاة النهار عجماء، يريد انه لا يجهر بالقراءة في شيء من صلوات النهار قال ابو بكر: في خبر معمر، عن الزهري: جهر بالقراءة.وَالدَّلِيلِ عَلَى ضِدِّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ مِنَ التَّابِعِينَ أَنَّ صَلَاةَ النَّهَارِ عَجْمَاءُ، يُرِيدُ أَنْهُ لَا يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَوَاتِ النَّهَارِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ: جَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ.
جناب عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء کے لئے باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رُخ ہوئے اور لوگوں کی طرف اپنی پشت کرلی۔ اپنی چادر کو اُلٹایا، اور دو رکعت پڑھائیں اور ان میں قراءت کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بلند آواز سے قراءت کی۔