جناب اسحاق بن عبداللہ سے روایت ہے کہ مدینہ منوّرہ کے گورنر جناب ولید بن عتبہ نے اُنہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور اُنہیں کہا کہ اے میرے بھتیجے، اُن سے پوچھ کر آؤ کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ساتھ لیکر بارش کی دعا کی تھی اُس دن آپ نے (دعا اور نماز) استسقاء میں کیسے عمل کیا تھا؟ جناب اسحاق فرماتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کی کہ اے ابوالعباس، جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی دعا کی تھی اُس روز آپ نے دعا اور نماز استسقاء میں کیسے عمل کیا تھا؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اُس روز) نہایت عاجزی اور سادگی کے ساتھ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء میں اسی طرح کیا جیسے آپ نماز عیدالفطر اور عید الاضحٰی میں کرتے تھے۔
والدليل على ضد قول من زعم من التابعين ان صلاة النهار عجماء، يريد انه لا يجهر بالقراءة في شيء من صلوات النهار قال ابو بكر: في خبر معمر، عن الزهري: جهر بالقراءة.وَالدَّلِيلِ عَلَى ضِدِّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ مِنَ التَّابِعِينَ أَنَّ صَلَاةَ النَّهَارِ عَجْمَاءُ، يُرِيدُ أَنْهُ لَا يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَوَاتِ النَّهَارِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ: جَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ.