حدثنا بندار ، حدثنا يحيى ، حدثنا إسماعيل ، حدثني قيس ، عن ابي مسعود عقبة بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رايتموها فصلوا" . قال ابو بكر: في قوله: فإذا رايتموها فصلوا، دلالة على حجة مذهب المزني رحمه الله في المسالة التي خالفه فيها بعض اصحابنا في الحالف إذا كان له امراتان، فقال: إذا ولدتما ولدا فانتما طالقتان، قال المزني: إذا ولدت إحداهما ولدا طلقتا إذ العلم محيط ان المراتين لا تلدان جميعا ولدا واحدا، وإنما تلد واحدا امراة واحدة، فقول النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا رايتموها فصلوا"، إنما اراد إذا رايتم كسوف إحداهما فصلوا، إذ العلم محيط ان الشمس والقمر لا ينكسفان في وقت واحد، كما لا تلد امراتان ولدا واحداحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي قَوْلِهِ: فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا، دِلالَةٌ عَلَى حُجَّةِ مَذْهَبِ الْمُزَنِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي الْمَسْأَلَةِ الَّتِي خَالَفَهُ فِيهَا بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِي الْحَالِفِ إِذَا كَانَ لَهُ امْرَأَتَانِ، فَقَالَ: إِذَا وَلَدْتُمَا وَلَدًا فَأَنْتُمَا طَالِقَتَانِ، قَالَ الْمُزَنِيُّ: إِذَا وَلَدَتْ إِحْدَاهُمَا وَلَدًا طُلِّقَتَا إِذِ الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ الْمَرْأَتَيْنِ لا تَلِدَانِ جَمِيعًا وَلَدًا وَاحِدًا، وَإِنَّمَا تَلِدُ وَاحِدًا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ، فَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا"، إِنَّمَا أَرَادَ إِذَا رَأَيْتُمْ كُسُوفَ إِحْدَاهُمَا فَصَلُّوا، إِذِ الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لا يَنْكَسِفَانِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ، كَمَا لا تَلِدُ امْرَأَتَانِ وَلَدًا وَاحِدًا
سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گر ہن نہیں لگتا، لیکن وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب تم یہ نشانی دیکھو تو نماز پڑھو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کہ ”جب تم یہ نشانی دیکھو تو نماز پڑھو۔“ اس میں امام مزنی رحمه الله کے مذہب کی دلیل و حجت موجود ہے۔ اس مسئلہ میں جس میں ہمارے اصحاب محدثین نے ان کی مخالف کہ ہے کہ قسم کھانے والے کی جب دو بیویاں ہوں اور وہ اُن سے کہے کہ جب تم دونوں بچہ پیدا کروگی تو تم دونوں کو طلاق ہو جائے گی۔ امام مزنی رحمه الله فرماتے ہیں کہ جب ان میں سے ایک عورت نے بچّے کو جنم دے دیا تو دونوں کو طلاق ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ دونوں عورتیں بیک وقت ایک ہی بچّے کو جنم نہیں دے سکتیں۔ بلکہ ایک عورت ایک بچّے کو ہی جنم دے گی۔ لہٰذا نبی کریم کا یہ فرمان کہ ”جب تم یہ نشانی دیکھو تو نماز پڑھو۔“ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جب تم ان میں سے کسی ایک کا گرہن دیکھو تو نماز پڑھو، کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ سورج اور چاند کو بیک وقت گرہن نہیں لگتا، جس طرح کہ دو عورتیں ایک ہی بچّے کو جنم نہیں دے سکتیں۔
قال الله عز وجل وما نرسل بالآيات إلا تخويفا (الإسراء: 59). قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا (الْإِسْرَاءِ: 59).
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: «وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا» [ سورة الإسراء: 59 ]”اور ہم تو نشانیاں صرف ڈرانے کے لئے بھیجتے ہیں۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں اُٹھ کھڑے ہوئے، اس ڈر سے کہ کہیں یہ قیامت ہی نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر مسجد میں تشریف لے آئے اور آپ نے کھڑے ہو کر نہایت طویل قیام، رکوع اور سجدوں کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کر دی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی طویل ترین نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا۔ پھر (نماز کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ نشانیاں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے یہ کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے وقوع پذیر نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں بھیج کر اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ لہٰذا جب تم ان میں سے کوئی چیز دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس سے دعا و التجا اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنے کی طرف جلدی کرو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگ گیا تو لوگ کہنے لگے کہ سورج گرہن سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کہ وجہ سے ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگو ں کو خطبہ دیا اور فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ لہٰذا جب تم گرہن دیکھو تو اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرو «الحَمْدُ لِلَٰه» پڑھو «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھو اور «سُبْحَانَ اللَٰه» پڑھو، اور اس وقت تک نماز پڑھو جب تک ان میں سے جسے بھی گرہن لگا ہے اس کا گرہن صاف نہ ہو جائے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اُترے تو دو رکعات نماز پڑھائی۔
سیدنا عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنے تیروں کے ساتھ تیراندازی کی مشق کررہا تھا، اچانک سورج کو گرہن لگ گیا میں نے تیر پھینک دیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ کھڑے ہوئے تھے، اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے، تسبیح، تکبیر تحمید اور دعا کر رہے تھے حتیٰ کہ گرہن دور ہوگیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھ کر دو رکعات پڑھائیں۔
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ سورج کو گرہن لگ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی کی وجہ سے اپنی چادر کو کھینچے ہوئے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور لوگ بھی آپ کے پاس جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات پڑھائیں جس طرح کہ تم نماز پڑھتے ہو، پھر جب سورج گرہن چھٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ”بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا دھمکاتا ہے، اور لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا، لہٰذا جب تم ان دونوں میں سے کسی کو گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا مانگو حتیٰ کہ تمہاری یہ مشکل دور ہو جائے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو یہ اعلان کیا گیا، بیشک جمع کرنے والی نماز (تیار ہے)(اس) کے لئے آؤ۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اسی طرح اس روایت کو معاویہ بن سلام نے بھی سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔