سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کیں، میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، یہ کونسی نماز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز نہیں پڑھا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تھا تو اُنہوں نے مجھے ان دو رکعات کی ادائیگی سے مشغول کر دیا تھا جو میں نماز ظہر کے بعد ادا کرتا تھا۔“ میں نے اس روایت کے طرق کتاب الکبیر میں بیان کیے ہیں - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد دو رکعت سنّت ادا کی ہیں - ان دو رکعات کی قضا دیتے ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد پڑھتے تھے - اور اگر عصر کے بعد غروب آفتاب تک تمام نفلی نمازوں کی ادائیگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کی ہوتی تو پھر یہ جائز نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعات ظہر کے بعد پڑھتے تھے ان کی قضا عصر کے بعد دیتے بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعات نفلی عمل پر ہمیشگی اختیار کرتے ہوئے استحباب کے طور پر ادا کی تھیں - کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک افضل ترین عمل ہمیشگی والا ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل کرتے تھے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرنا پسند کرتے تھے۔
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دو رکعات کے بارے میں پوچھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں عصر کے بعد ادا کیا کرتے تھے۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دو رکعات عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ پھر ان دو رکعات کی ادا ئیگی سے مشغول ہوگئے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ادا کرنا بھول گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عصر کے بعد ادا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعات کو ہمیشہ ادا کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا کرتے تو اس پر ہمیشگی اور دوام اختیار کرتے تھے۔
وفي خبر جابر بن يزيد بن الاسود السوائي ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال للرجلين بعد فراغه من صلاة الفجر: " إذا صليتما في رحالكما، ثم جئتما والإمام يصلي فصليا معه، تكون لكما نافلة" ، ساخرجه إن شاء الله بتمامه. ناه يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، وزياد بن ايوب ، قالا: حدثنا هشيم ، اخبرنا يعلى بن عطاء ، عن جابر بن يزيد السوائي، عن ابيه، قال ابو بكر: والنبي صلى الله عليه وسلم في هذا الخبر قد امر من صلى الفجر في رحله ان يصلي مع الإمام، واعلم ان صلاته تكون مع الإمام نافلة فلو كان النهي عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس نهيا عاما لا نهيا خاصا، لم يجز لمن صلى الفجر في الرحل ان يصلي مع الإمام فيجعلها تطوعا، واخبار النبي صلى الله عليه وسلم:" سيكون عليكم امراء يؤخرون الصلاة عن وقتها، فصلوا الصلاة لوقتها، واجعلوا صلاتكم معهم سبحة"، فيها دلالة على ان الإمام إذا اخر العصر او الفجر او هما، إن على المرء ان يصلي الصلاتين جميعا لوقتهما، ثم يصلي مع الإمام ويجعل صلاته معه سبحة، وهذا تطوع بعد الفجر، وبعد العصر، وقد امليت قبل خبر قيس بن قهد، وهو من هذا الجنس، والنبي صلى الله عليه وسلم قد زجر بني عبد مناف، وبني عبد المطلب ان يمنعوا احدا يصلي عند البيت اي ساعة شاء من ليل او نهاروَفِي خَبَرِ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ الأَسْوَدِ السُّوَائِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِلرَّجُلَيْنِ بَعْدَ فَرَاغِهِ مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ: " إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا، ثُمَّ جِئْتُمَا وَالإِمَامُ يُصَلِّي فَصَلِّيَا مَعَهُ، تَكُونُ لَكُمَا نَافِلَةً" ، سَأُخَرِّجُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِتَمَامِهِ. ناهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ السُّوَائِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ قَدْ أَمَرَ مَنْ صَلَّى الْفَجْرَ فِي رَحْلِهِ أَنْ يُصَلِّيَ مَعَ الإِمَامِ، وَأَعْلَمَ أَنَّ صَلاتَهُ تَكُونُ مَعَ الإِمَامِ نَافِلَةً فَلَوْ كَانَ النَّهْيُ عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ نَهْيًا عَامًّا لا نَهْيًا خَاصًّا، لَمْ يُجِزْ لِمَنْ صَلَّى الْفَجْرَ فِي الرَّحْلِ أَنْ يُصَلِّيَ مَعَ الإِمَامِ فَيَجْعَلَهَا تَطَوُّعًا، وَأَخْبَارُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ يُؤَخِّرُونَ الصَّلاةَ عَنْ وَقْتِهَا، فَصَلَّوَا الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا، وَاجْعَلُوا صَلاتَكُمْ مَعَهُمْ سُبْحَةً"، فِيهَا دِلالَةٌ عَلَى أَنَّ الإِمَامَ إِذَا أَخَّرَ الْعَصْرَ أَوِ الْفَجْرَ أَوْ هُمَا، إِنَّ عَلَى الْمَرْءِ أَنْ يُصَلِّيَ الصَّلاتَيْنِ جَمِيعًا لِوَقْتِهِمَا، ثُمَّ يُصَلِّي مَعَ الإِمَامِ وَيَجْعَلُ صَلاتَهُ مَعَهُ سُبْحَةً، وَهَذَا تَطَوُّعٌ بَعْدَ الْفَجْرِ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ أَمْلَيْتُ قَبْلُ خَبَرَ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ، وَهُوَ مِنْ هَذَا الْجِنْسِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَجَرَ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، وَبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْ يَمْنَعُوا أَحَدًا يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ
جناب یزید بن اسود السوائی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دو آدمیوں سے فرمایا: ”جب تم اپنی رہائش گاہوں پر نماز پڑھ لو پھر تم (مسجد میں) آؤ جبکہ امام نماز پڑھا رہا ہو تو تم اسے کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو، وہ تمہارے لئے نفل بن جائے گی۔ میں عنقریب یہ روایت مکمّل بیان کر دوں گا۔ ان شاء اللہ۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اس شخص کو امام کے ساتھ نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے جو نماز فجر اپنی رہائش گاہ پر پڑھ چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ امام کے ساتھ اس کی نماز نفل ہو جائے گی لہٰذا اگر نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز پڑھنے کی مما نعت عام ہوتی، خاص نہ ہوتی تو جو شخص اپنی رہائش گاہ میں فجر پڑھ چکا ہو اُس کے لئے امام کے ساتھ (دوبارہ) نماز فجر کو نفل بناتے ہوئے ادا کرنا جائز نہ ہوتا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث کہ عنقریب تم پر ایسے حکمران اور امراء مقرر ہوں گے جو نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کریں گے، تو تم نماز کو اُس کے وقت پر ادا کرلو اور اُن کے ساتھ اپنی نماز کو نفل شمار کرلو۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب امام نماز عصر، یا نماز فجر، یا دونوں کو مؤخر کرکے ادا کرتا ہو تو آدمی پر واجب ہے کہ وہ دونوں نمازیں ان کے وقت پر ادا کرلے۔ پھر امام کے ساتھ بھی ادا کرلے اور امام کے ساتھ پڑھنے والی نماز کو نفل بنالے۔ اور یہ فجر اور عصر کے بعد نفل نماز ہوگی اور میں اس سے پہلے حضرت قیس بن قہد کی حدیث بھی لکھوا چکا ہوں۔ وہ بھی اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد مناف اور بنی عبدالمطلب کو منع کیا ہے کہ بیت اللہ میں دن یا رات کی کسی بھی گھڑی میں نماز پڑھنے والے کو روکیں۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبد مناف، اے بنی عبدالمطلب، اگر تمہیں (بیت اللہ کے انتظام و انصرام میں سے) کچھ ذمہ داری اور اختیار ملا ہے تو مجھے ہر گز یہ اطلاع نہ ملے کہ تم نے کسی شخص کو اس بیت اللہ میں دن یا رات کی کسی گھڑی میں بھی نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔“ یہ ابن جریج کی روایت کے الفاظ ہیں۔ جبکہ احمد بن مقدام کے الفاظ یہ ہیں کہ ”اگر تمہیں اس انتظام وانصرام میں سے کچھ ذمہ داری ملی ہے۔ اور کہا کہ ”رات یا دن کی جس گھڑی میں (چاہے، نماز پڑھ لے۔)“
810. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عصر کے بعد دو رکعت ادا کرنے کے بعد ان پر ہمیشگی اختیار کی ہے، عمل پر ہمیشگی اختیار کرنے کی فضیلت کی وجہ سے
حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اے اُم المؤمنین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک کیسا ہوتا تھا، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عبادت و عمل کے لئے) کچھ دن مخصوص کیا کرتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہمیشگی والا ہوتا تھا - اور تم میں سے کون (عمل کرنے کی اتنی) استطاعت رکھتا ہے جتنی استطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب تھی۔ یہ ابوعمار کی حدیث کے الفاظ ہیں - جناب یوسف کے الفاظ یہ ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں، آپ کا عمل مبارک ہمیشگی اور دوام والا ہوتا تھا - جبکہ جناب الدورقی نے اپنی روایت میں یہ کہا کہ میں نے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے ہوتی تھی۔ اور یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ کیا آپ کچھ دنوں کو (عمل و عبادت کے لئے) خاص کرتے تھے؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس بنی اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی کہ فلاں عورت ہے جو اپنی (نفل) نماز (کی کثرت) کی وجہ سے مشہور ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رک جاؤ، تم پر تمہاری طاقت کے مطابق عمل کرنا واجب ہے۔ اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ (اجر و ثواب عطا کرتے) نہیں تھکتا، حتیٰ کہ تم ہی (عمل کرتے) تھک جاؤ گے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ تھا جس پر عمل کرنے والا ہمیشگی اختیار کرتا۔
سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عمل سب سے زیادہ محبوب تھا جس پر ہمیشگی اور دوام اختیار فرماتے اگر چہ وہ تھوڑا ہوتا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرتے۔ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی «الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ» (سچّے مومن وہ ہیں)”جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی اختیار کرتے ہیں۔“
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما نهى عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس إذا كانت الشمس غير مرتفعة، فدانت للغروب وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ غَيْرَ مُرْتَفِعَةٍ، فَدَانَتْ لِلْغُرُوبِ
اور اس بات کی دلیل کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد غروب آفتاب تک نفل نماز پڑھنے سے اس وقت منع کیا ہے جبکہ سورج بلند نہ ہو اور غروب ہونے کے قریب ہوجائے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم عصر کے بعد نماز نہ پڑھو، الّا یہ کہ تم نماز اس حال میں پڑھو کہ سورج ابھی بلند ہو۔“