سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعات نماز (نفل) ادا کی۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز ادا کرتے رہے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے نماز مغرب کے بعد چھ رکعات نماز نفل پڑھی، ان کے درمیان ذکر الہٰی کے سوا کوئی بات چیت نہ کی تو یہ رکعات اُس کے لئے بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوجائیں گی۔ جناب الربالی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”ان کے درمیان کوئی بری بات کیے بغیر نماز پڑھے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اور عصر کے علاوہ ہر فرض نماز کے بعد دو رکعات پڑھا کرتے تھے۔ یہ جناب وکیع کی حدیث کے الفاظ ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر سے پہلے دو رکعات اور دو رکعات اس کے بعد ادا کیں، اور دو رکعات مغرب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پڑھیں، اور دو رکعات عشاء کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پڑھیں۔ جناب احمد بن منیع کی حدیث یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ جناب مؤمل بن ہشام نے یہ اضافہ بیان کیا، فرماتے ہیں کہ مجھے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور وہ ایسا وقت تھا جس میں کوئ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آتا تھا، بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا کرتے حتیٰ کہ (دوسری) فجر طلوع ہو جاتی اور مؤذن نماز کے لئے اذان دے دیتا - راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعات ہلکی اور مختصر ادا کرتے، اور دو رکعات جمعہ کے بعد اپنے گھر میں ادا کرتے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر سے پہلے دو رکعات اور اس کے بعد بھی دو رکعات پڑھتے تھے۔ مغرب کے بعد دو رکعات اور عشاء کے بعد بھی دو رکعات پڑھتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ اور مجھے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا حالانکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے وقت بھی دو رکعات پڑھتے تھے۔
جناب عبداللہ بن شقیق رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعات میرے گھر میں پڑھتے تھے، پھر تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر واپس تشریف لاتے اور دو رکعات ادا کرتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر واپس آ کر دو رکعات ادا کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عشاء کی نماز پڑھاتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوتے تو دو رکعات ادا کرتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نو رکعات وتروں سمیت ادا کرتے، اور جب فجر طلوع ہو جاتی تو دو رکعات ادا کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد) تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز فجر پڑھاتے۔“
بلفظ امر قد يحسب بعض من لم يتبحر العلم ان مصليها في المسجد عاص، إذ النبي صلى الله عليه وسلم امر ان يصليها في البيوت بِلَفْظِ أَمْرٍ قَدْ يَحْسِبُ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ أَنَّ مُصَلِّيَهَا فِي الْمَسْجِدِ عَاصٍ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَنْ يُصَلِّيَهَا فِي الْبُيُوتِ
ایک ایسے لفظ کے ساتھ جس سے کم علم لوگوں کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ دو رکعات مسجد میں ادا کرنے والا گناہ گار ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھروں میں ادا کرنے کا حُکم دیا ہے
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عبداشہل (کے قبیلے) میں تشریف لائے تو اُنہیں نماز مغرب پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو فرمایا: ”یہ دو رکعات اپنے گھروں میں پڑھو۔“(قتادہ) کہتے ہیں کہ بیشک میں نے سیدنا محمود رضی اللہ عنہ کو دیکھا، جبکہ وہ اپنی قوم کے امام تھے، آپ اُنہیں مغرب کی نماز پڑھاتے تھے۔ پھر آپ باہر تشریف لاتے اور مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے، حتیٰ کہ عشاء سے تھوڑی دیر پہلے اُٹھ کر گھر چلے جاتے اور یہ دو رکعات ادا کرتے۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز قبیلہ بنی عبد اشہل کی مسجد میں ادا کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے تو لوگوں نے اُٹھ کر سنّیتں ادا کرنی شروع کر دیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں یہ نماز اپنے گھروں میں پڑھنی چاہیے۔“