سیدنا سعد بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس آیا، پھر ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں گئے، ہم نے اجازت طلب کی تو ہمیں حاضری کی اجازت مل گئی۔ ہم نے عرض کی اے اُم المؤمنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں بتائیں۔ تو اُنہوں نے فرمایا، کیا آپ قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتے۔ ان کی مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تھا: «وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ» [ سورہ القلم: 4 ]”یقیناًً ً آپ خلق عظیم پر (کاربند) ہیں۔ تو اُنہوں نے کہا، کیوں نہیں، (میں یہ فرمان تلاوت کرتا ہوں) اُم المؤمنین نے فرمایا، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا۔ پھر میں نے عرض کی کہ اے اُم المؤمنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام (رات کی نماز) کے متعلق خبر دیں۔ اُنہوں نے فرمایا تو کیا تم سورہ المزمل کی تلاوت نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کی کہ جی کرتا ہوں پس اُنہوں نے فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں رات کا قیام فرض کیا تھا۔ تو اللہ کے نبی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے ایک سال تک رات کا قیام کیا حتیٰ کہ ان کے قدم سوجھ گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصّہ کو آسمان میں بارہ مہنیے روکے رکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی۔ لہٰذا رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا۔ پھر اُنہوں نے بقیہ حدیث بیان کی۔ حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں۔ تو میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُنہیں اُم المؤمنین کی گفتگو سنائی۔ تو انہوں نے فرمایا کہ (اماں جی نے) سچ فرمایا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت گھر سے مسجد تشریف لے گئے اور نماز (تہجّد) ادا کی - کچھ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، صبح ہوئی تو لوگوں نے اس بارے میں ایک دوسرے کو بتایا پھر جب تیسری رات ہوئی تو بہت سارے لوگ مسجد میں جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب چوتھی رات ہوئی تو سارے لوگ مسجد میں نہ سما سکے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کے پاس تشریف نہ لائے، اُن میں سے چند افراد نماز نماز کہہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے رہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف نہ لائے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لئے تشریف لائے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر مکمّل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، لوگوں کی طرف اپنے چہرہ مبارک کے ساتھ متوجہ ہوئے، خطبہ پڑھا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”اما بعد، بلاشبہ مجھ پر تمہاری حالت (آمد) پوشیدہ نہیں تھی لیکن مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں تم پر رات کی نماز فرض قرار نہ دے دی جائے، پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ - یہ جناب الدورقی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم فلاں شخص کی طرح ہرگز نہ ہوجانا، وہ رات کو قیام کرتا تھا پھر اُس نے قیام اللیل چھوڑ دیا۔“ جناب یونس کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ تم (فلاں کی طرح) نہ ہونا۔“
سیدنا عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اُس نے عرض کی کہ بیشک فلاں آدمی کل رات نماز سے سویا رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُس آدمی کے کان یا دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے (اس لئے صبح تک بیہوش سویا رہا ہے)۔“ یہ ابوموسیٰ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے کسی شخص کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے جبکہ وہ سویا ہوتا ہے۔ ہرگرہ پر یہ پھونک دیتا ہے، تیرے لئے رات بڑی طویل ہے۔ چنانچہ اگر وہ بیدار ہوگیا اور اللہ کا ذکر کیا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور اگر وضو کر لیتا ہے تو دو گرہیں کھل جاتی ہیں۔ پھر اگر نماز پڑھ لے تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں۔ چنانچہ وہ صبح کے وقت ہشاش بشاش اور خوش مزاج ہوتا ہے وگرنہ صبح کے وقت پریشان حال، خراب طبیعت اور سست ہوتا ہے۔“ یہ جناب الدورقی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔
716. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ تعالہ کا ذکر اور وضو کرنے کے بعد رات کے وقت دو رکعات پڑھنے سے وہ تمام گرہیں کھل جاتی ہیں جو شیطان سونے والے کی گدی پر لگاتا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک بندہ جب سوتا ہے تو شیطان اس پر تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ پھر اگر وہ رات کو بیدار ہوکر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، اگر وضو کر لیتا ہے تو دو گرہیں کھل جاتی ہیں، پھر اگر دو رکعات ادا کر لے تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں لہٰذا شیطان کی گرہیں کھولا کرو اگرچہ دو رکعات ہی کے ساتھ ہو۔“
وان المراة تحل عن نفسها عقد الشيطان بذكر الله والوضوء والصلاة كالرجل سواء وَأَنَّ الْمَرْأَةَ تَحُلُّ عَنْ نَفْسِهَا عُقَدَ الشَّيْطَانِ بِذِكْرِ اللَّهِ وَالْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ كَالرَّجُلِ سَوَاءً
جس طرح وہ مردوں کی گدی پر گرہیں لگاتا ہے اور عورت بھی اپنے آپ سے شیطان کی گرہیں مرد کی طرح اللہ تعالی کا ذکر کرنے، وضو کرنے اور نماز پڑھنے سے کھول سکتی ہے
جناب ابوسفیان بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مرد اور عورت کے سر پر رسّی سے گرہیں لگائی جاتی ہیں جب وہ سوتا ہے۔ پھر اگر وہ بیدار ہوا اور اُس نے اللہ کا ذکر کیا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب اُٹھ کر وضو کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں۔“ جناب ابوسفیان سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مرد اور عورت جب رات کو سوتا ہے تو اس پر رسّی سے گرہ لگادی جاتی ہے۔“ اوپر والی روایت کی طرح حدیث بیان کی اور یہ اضافہ بیان کیا، ”اور وہ صبح کے وقت ہلکا پھلکا خوش مزاج ہوتا ہے، اُس نے بہت سی خیر و بھلائی حاصل کی ہوتی ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ الجریر سے مراد رسّی ہے۔