صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
نمازِوتر اور اس میں سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
676. (443) بَابُ ذِكْرِ الْأَخْبَارِ الْمَنْصُوصَةِ وَالدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِفَرْضٍ
676. ان احادیث کا بیان جو اس بات کی صریح نص و دلیل ہیں کہ نمازِ وتر فرض نہیں ہے
حدیث نمبر: Q1066
Save to word اعراب
لا على ما زعم من لم يفهم العدد، ولا فرق بين الفرض وبين الفضيلة، فزعم ان الوتر فريضة، فلما سئل عن عدد الفرض من الصلاة زعم ان الفرض من الصلاة خمس، فقيل له: والوتر، فقال: فريضة، فقال السائل: انت لا تحسن العددلَا عَلَى مَا زَعَمَ مَنْ لَمْ يَفْهَمِ الْعَدَدَ، وَلَا فَرَّقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَبَيْنَ الْفَضِيلَةِ، فَزَعَمَ أَنَّ الْوِتْرَ فَرِيضَةٌ، فَلَمَّا سُئِلَ عَنْ عَدَدِ الْفَرْضِ مِنَ الصَّلَاةِ زَعَمَ أَنَّ الْفَرْضَ مِنَ الصَّلَاةِ خَمْسٌ، فَقِيلَ لَهُ: وَالْوِتْرُ، فَقَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقَالَ السَّائِلُ: أَنْتَ لَا تُحْسِنُ الْعَدَدَ

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1066
Save to word اعراب
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں کتاب کے شروع میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اعرابی کا اسلام کے متعلق سوال اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے جواب، سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کی روایت املا کراچکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اُس نے دریا فت کیا کہ ان کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، مگر یہ کہ تم نفل نماز پڑھو۔ تو نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتا دیا کہ پانچ نمازوں سے جو زائد ہوگی وہ نفل ہوگی۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
حدیث نمبر: 1067
Save to word اعراب
نا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، وعبد الله بن سعيد الاشج ، ومحمد بن هشام ، قالوا: حدثنا ابو بكر بن عياش ، نا ابو إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، قال: قال علي : إن الوتر ليس بحتم، ولا كصلاتكم المكتوبة، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوتر، ثم قال:" يا اهل القرآن اوتروا ؛ فإن الله وتر يحب الوتر" . غير ان الاشج لم يذكر: يا اهل القرآن اوتروا. وقال محمد بن هشام، عن ابي إسحاق، وحدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي ، نا سفيان ، عن ابي إسحاق نحو حديث الدورقي في إسناده، ومتنهنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، نَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : إِنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ، وَلا كَصَلاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْتَرَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا ؛ فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ" . غَيْرُ أَنَّ الأَشَجَّ لَمْ يَذْكُرْ: يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا. وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ الدَّوْرَقِيِّ فِي إِسْنَادِهِ، وَمَتْنِهِ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بیشک وتر واجب نہیں ہے۔ اور نہ تمہاری فرض نمازوں کی طرح ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر ادا کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو، پس بیشک ﷲ تعالیٰ وتر ہے اور وتر (عدد) کو پسند کرتا ہے۔ جناب عبداﷲ بن سعید الاشج نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو۔ جناب سعید بن عبدالرحمان نے سفیان کے واسطے سے ابواسحاق سے سند و متن کے لحاظ سے الدورقی کی حدیث کی طرح روایت بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1068
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، نا عبد الله بن حمران ، نا عبد الحميد بن جعفر بن عبد الله ، حدثني جعفر بن عبد الله ، عن عبد الرحمن بن ابي عمرة النجاري ، انه سال عبادة بن الصامت عن الوتر، قال:" امر حسن جميل عمل به النبي صلى الله عليه وسلم والمسلمون من بعده، وليس بواجب" . قال ابو بكر: قد خرجت في كتاب الكبير اخبار النبي صلى الله عليه وسلم في إعلامه ان الله فرض عليه وعلى امته خمس صلوات في اليوم والليلة، فدلت تلك الاخبار على ان الموجب للوتر فرضا على العباد موجب عليهم ست صلوات في اليوم والليلة، وهذه المقالة خلاف اخبار النبي صلى الله عليه وسلم، وخلاف ما يفهمه المسلمون، عالمهم وجاهلهم وخلاف ما تفهمه النساء في الخدور والصبيان في الكتاتيب، والعبيد والإماء، إذ جميعهم يعلمون ان الفرض من الصلاة خمس لا ستحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ ، نَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ النَّجَّارِيِّ ، أَنَّهُ سَأَلَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ عَنِ الْوِتْرِ، قَالَ:" أَمْرٌ حَسَنٌ جَمِيلٌ عَمِلَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مِنْ بَعْدِهِ، وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ خَرَّجْتُ فِي كِتَابِ الْكَبِيرُ أَخْبَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِعْلامِهِ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِ وَعَلَى أُمَّتِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَدَلَّتْ تِلْكَ الأَخْبَارُ عَلَى أَنَّ الْمُوجِبَ لِلْوِتْرِ فَرْضًا عَلَى الْعِبَادِ مُوجِبٌ عَلَيْهِمْ سِتَّ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، وَهَذِهِ الْمَقَالَةُ خِلافُ أَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخِلافُ مَا يَفْهَمُهُ الْمُسْلِمُونَ، عَالِمُهُمْ وَجَاهِلُهُمْ وَخِلافُ مَا تَفْهَمُهُ النِّسَاءُ فِي الْخُدُورِ وَالصِّبْيَانُ فِي الْكَتَاتِيبِ، وَالْعَبِيدُ وَالإِمَاءُ، إِذْ جَمِيعُهُمْ يَعْلَمُونَ أَنَّ الْفَرْضَ مِنَ الصَّلاةِ خَمْسٌ لا سِتٌّ
جناب عبدالرحمان بن ابی عمرہ البخاری سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے وتر کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا، بہت عمدہ اور اچھا کام ہے - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد مسلمانوں نے اس پر عمل کیا ہے، اور یہ واجب نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ میں نے کتاب الکبیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فرامین بیان کیے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ تو ان روایات نے اس بات پر دلالت کی ہے کہ بندوں پر وتر کو واجب قرار دینے والا شخص، ان پر دن اور رات میں چھ نمازیں واجب قرار دیتا ہے - اور یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے خلاف ہے - مسلمانوں کے عالم اور جاہل جو سمجھتے ہیں، اس کے بھی خلاف ہے۔ پردہ نشین خواتین نے پردہ میں جو سمجھا، بچوں نے مکتب و مدرسہ میں جو سمجھا اور جو غلاموں اور لونڈیوں نے سمجھا اس کے خلاف ہے - کیونکہ یہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ فرض نمازیں پانچ ہیں، چھ نہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
حدیث نمبر: 1069
Save to word اعراب
ثنا ايوب بن إسحاق، نا ابو معمر، عن عبد الوارث بن سعيد، قال: سالت ابا حنيفة، او سئل ابو حنيفة، عن الوتر، فقال:" فريضة، فقلت: او فقيل له: فكم الفرض؟ قال: خمس صلوات، فقيل له: فما تقول في الوتر؟ قال: فريضة، فقلت او فقيل له: انت لا تحسن الحساب" ثنا أَيُّوبُ بْنُ إِسْحَاقَ، نَا أَبُو مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، أَوْ سُئِلَ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ:" فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ: أَوْ فَقِيلَ لَهُ: فَكَمِ الْفَرْضُ؟ قَالَ: خَمْسُ صَلَوَاتٍ، فَقِيلَ لَهُ: فَمَا تَقُولُ فِي الْوِتْرِ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ أَوْ فَقِيلَ لَهُ: أَنْتَ لا تُحْسِنُ الْحِسَابَ"
جناب عبدالوارث بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا یا امام ابوحنیفہ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُنہوں نے فرمایا کہ وتر فرض ہے۔ تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا، فرض نمازوں کی تعداد کتنی ہے؟ جواب دیا کہ پانچ نمازیں ہیں۔ تو اُن سے کہا گیا تو آپ وتر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ فرض ہے - تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا کہ آپ کو حساب کرنا نہیں آتا۔

تخریج الحدیث:
677. (444) بَابُ ذِكْرِ دَلِيلٍ بِأَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِفَرْضٍ
677. اس بات کی دلیل کا بیان کہ وتر فرض نہیں ہے
حدیث نمبر: 1070
Save to word اعراب
نا محمد بن العلاء بن كريب ، نا مالك يعني ابن إسماعيل ، نا يعقوب ، ح وحدثنا محمد بن عثمان العجلي ، نا عبيد الله يعني ابن موسى ، نا يعقوب بن عبد الله القمي ، عن عيسى بن جارية ، عن جابر بن عبد الله ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا ان يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد حتى اصبحنا، فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله، رجونا ان تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال:" كرهت ان يكتب عليكم الوتر" نَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، نَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، نَا يَعْقُوبُ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ ، نَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى ، نَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ:" كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ"
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان المبارک میں آٹھ رکعت اور وتر پڑھایا۔ پھر آئندہ رات بھی ہم مسجد میں جمع ہو گئے اور اُمید کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائیں گے (اور نماز پڑھائیں گے) تو ہم مسجد ہی میں رہے حتیٰ کہ صبح ہو گئی ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ہمیں اُمید تھی کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے پاس تشریف لائیں گے اور ہمیں نماز پڑھائیں گے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض کردیے جائیں۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
678. (445) بَابُ التَّرْغِيبِ فِي الْوِتْرِ وَاسْتِحْبَابِهِ إِذِ اللَّهُ يُحِبُّهُ
678. وتر کی ترغیب اور استحباب کا بیان کیونکہ اللہ تعالی اسے پسند کرنا ہے
حدیث نمبر: 1071
Save to word اعراب
حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، وزياد بن يحيى الحساني قال زياد ثنا، وقال نصر، انا عبد العزيز بن عبد الصمد ، حدثنا هشام ، عن محمد ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله وتر يحب الوتر" حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، وَزِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْحَسَّانِيُّ قَالَ زِيَادٌ ثنا، وَقَالَ نَصْرٌ، أنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر (عدد) کو پسند کرتا ہے۔

تخریج الحدیث:
679. (446) بَابُ ذِكْرِ الْأَخْبَارِ الْمَنْصُوصَةِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ
679. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوص روایات کا بیان کہ وتر ایک رکعت ہے
حدیث نمبر: 1072
Save to word اعراب
نا عبد الجبار بن العلاء ، وسعيد بن عبد الرحمن المخزومي ، حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال. ح وحدثنا عبد الجبار ، نا سفيان ، عن عمرو ، عن طاوس ، سمعه من ابن عمر ، وابن ابي لبيد ، عن ابي سلمة ، عن ابن عمر ، ح وحدثنا المخزومي ، نا سفيان ، عن عمرو بن دينار ، عن طاوس ، عن ابن عمر . ح وحدثنا عبد الرحمن بن بشر ، نا سفيان ، عن الزهري، عن سالم ، عن ابيه ، وعبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، وعن عمرو ، عن طاوس ، عن ابن عمر . ح وحدثنا عبد الجبار ، وسعيد بن عبد الرحمن ، قالا: حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، قال عبد الجبار: سمع ابن عمر ، يقول: وقال المخزومي: عن عبد الله بن عمر، وحدثنا احمد بن منيع ، ومؤمل بن هشام ، وزياد بن ايوب ، قالوا: حدثنا إسماعيل بن علية ، قال مؤمل: عن ايوب، وقال الآخرون: اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر . ح وحدثنا بندار ، نا يحيى ، نا عبيد الله ، اخبرني نافع ، عن ابن عمر . ح وحدثنا بندار ، ايضا حدثنا حماد بن مسعدة ، نا عبد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر . ح وحدثنا علي بن حجر ، نا إسماعيل بن جعفر ، نا عبد الله بن دينار ، سمع ابن عمر . ح وحدثنا بندار ، حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، حدثنا خالد ، وحدثنا بندار ايضا، نا عبد الاعلى ، حدثنا خالد ، ح وحدثنا الصنعاني ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا خالد ، عن عبد الله بن شقيق ، عن ابن عمر كلهم ذكروا: عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خفت الصبح فاوتر بركعة" هذا لفظ حديث عبد الجبار بخبر الزهري. قال ابو بكر: قد خرجت طرق هذه الاخبار في المسالة التي امليتها في الرد على من زعم ان الوتر بركعة غير جائز إلا لخائف الصبح، واعلمت في ذلك الموضع ما بان لذوي الفهم والتمييز جهل قائل هذه المقالةنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ. ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، سَمِعَهُ مِنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ أَبِي لَبِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ح وَحَدَّثَنَا الْمَخْزُومِيُّ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَعَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ عَبْدُ الْجَبَّارِ: سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: وَقَالَ الْمَخْزُومِيُّ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، وَمُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَ مُؤَمَّلٌ: عَنْ أَيُّوبَ، وَقَالَ الآخَرُونَ: أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى ، نَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، أَيْضًا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، نَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ . ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ أَيْضًا، نَا عَبْدُ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، ح وَحَدَّثَنَا الصَّنْعَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ كُلُّهُمْ ذَكَرُوا: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِرَكْعَةٍ" هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بِخَبَرِ الزُّهْرِيِّ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ خَرَّجْتُ طُرُقَ هَذِهِ الأَخْبَارِ فِي الْمَسْأَلَةِ الَّتِي أَمْلَيْتُهَا فِي الرَّدِّ عَلَى مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْوِتْرَ بِرَكْعَةٍ غَيْرُ جَائِزٍ إِلا لِخَائِفٍ الصُّبْحَ، وَأَعْلَمْتُ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ مَا بَانَ لِذَوِي الْفَهْمِ وَالتَّمْيِيزِ جَهْلَ قَائِلِ هَذِهِ الْمَقَالَةِ
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب تمہیں صبح ہونے کا خوف ہو تو ایک رکعت وتر ادا کر لو۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے ان روایات کی اسانید اس مسئلہ میں بیان کی ہیں جو میں نے اس شخص کے رد میں املاء کروائی ہیں جو خیال کرتا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں ہے، سوائے اس شخص کے جسے صبح ہوجانے کا ڈر ہو۔ اور میں نے اس مقام پر بیان کیا ہے، جس سے اہل فہم و تمیز کے لئے یہ مقالہ کہنے والے کی جہالت خوب واضح ہوگئی ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1073
Save to word اعراب
نا احمد بن عبدة ، اخبرنا حماد بن زيد ، عن انس بن سيرين ، قال: قلت لابن عمر : ارايت الركعتين قبل صلاة الغداة، اطيل فيهما القراءة؟ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصلي من الليل مثنى مثنى ويوتر بركعة" نَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ : أَرَأَيْتَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاةِ الْغَدَاةِ، أُطِيلُ فِيهِمَا الْقِرَاءَةَ؟ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ"
جناب انس بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی کہ نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں آپ مجھے بتائیں، کیا ان میں طویل قرأت کرلوں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعات ادا فرماتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1074
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن مسكين اليمامي ، حدثنا بشر يعني ابن بكر ، اخبرنا الاوزاعي ، عن المطلب بن عبد الله المخزومي ، قال: كان ابن عمر يوتر بركعة، فجاءه رجل فساله عن الوتر،" فامره ان يفصل ، فقال الرجل: إني اخشى ان يقول الناس: إنها البتيراء، فقال ابن عمر: اسنة الله ورسوله تريد؟ هذه سنة الله ورسوله"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيِّ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنِ الْوِتْرِ،" فَأَمَرَهُ أَنْ يَفْصِلَ ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: إِنَّهَا الْبُتَيْرَاءُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَسُنَّةَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ تُرِيدُ؟ هَذِهِ سُنَّةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ"
جناب مطلب بن عبداللہ مخزومی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ تو ایک شخص اُن کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے آپ سے وتر کے بارے میں سوال کیا۔ تو اُنہوں نے اُسے حُکم دیا کہ وتر علیحدہ پڑھا کرو۔ (ایک رکعت الگ پڑھو) اس شخص نے کہا، مجھے ڈر ہے کہ لوگ کہیں گے یہ دُم کٹی (ناقص) نماز ہے۔ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا تو کیا تم اللہ اور اُسکے رسول کی سنّت (جاننا) چاہتے ہو؟ یہ اللہ اور اُسکے رسول کی سنّت ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.