لا على ما زعم من لم يفهم العدد، ولا فرق بين الفرض وبين الفضيلة، فزعم ان الوتر فريضة، فلما سئل عن عدد الفرض من الصلاة زعم ان الفرض من الصلاة خمس، فقيل له: والوتر، فقال: فريضة، فقال السائل: انت لا تحسن العددلَا عَلَى مَا زَعَمَ مَنْ لَمْ يَفْهَمِ الْعَدَدَ، وَلَا فَرَّقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَبَيْنَ الْفَضِيلَةِ، فَزَعَمَ أَنَّ الْوِتْرَ فَرِيضَةٌ، فَلَمَّا سُئِلَ عَنْ عَدَدِ الْفَرْضِ مِنَ الصَّلَاةِ زَعَمَ أَنَّ الْفَرْضَ مِنَ الصَّلَاةِ خَمْسٌ، فَقِيلَ لَهُ: وَالْوِتْرُ، فَقَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقَالَ السَّائِلُ: أَنْتَ لَا تُحْسِنُ الْعَدَدَ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں کتاب کے شروع میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اعرابی کا اسلام کے متعلق سوال اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے جواب، سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کی روایت املا کراچکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اُس نے دریا فت کیا کہ ان کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تم نفل نماز پڑھو“۔ تو نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتا دیا کہ پانچ نمازوں سے جو زائد ہوگی وہ نفل ہوگی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”بیشک وتر واجب نہیں ہے۔ اور نہ تمہاری فرض نمازوں کی طرح ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر ادا کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو، پس بیشک ﷲ تعالیٰ وتر ہے اور وتر (عدد) کو پسند کرتا ہے۔ جناب عبداﷲ بن سعید الاشج نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو۔ جناب سعید بن عبدالرحمان نے سفیان کے واسطے سے ابواسحاق سے سند و متن کے لحاظ سے الدورقی کی حدیث کی طرح روایت بیان کی ہے۔
جناب عبدالرحمان بن ابی عمرہ البخاری سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے وتر کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا، بہت عمدہ اور اچھا کام ہے - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد مسلمانوں نے اس پر عمل کیا ہے، اور یہ واجب نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ میں نے کتاب الکبیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فرامین بیان کیے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ تو ان روایات نے اس بات پر دلالت کی ہے کہ بندوں پر وتر کو واجب قرار دینے والا شخص، ان پر دن اور رات میں چھ نمازیں واجب قرار دیتا ہے - اور یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے خلاف ہے - مسلمانوں کے عالم اور جاہل جو سمجھتے ہیں، اس کے بھی خلاف ہے۔ پردہ نشین خواتین نے پردہ میں جو سمجھا، بچوں نے مکتب و مدرسہ میں جو سمجھا اور جو غلاموں اور لونڈیوں نے سمجھا اس کے خلاف ہے - کیونکہ یہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ فرض نمازیں پانچ ہیں، چھ نہیں۔
جناب عبدالوارث بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا یا امام ابوحنیفہ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُنہوں نے فرمایا کہ وتر فرض ہے۔ تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا، فرض نمازوں کی تعداد کتنی ہے؟ جواب دیا کہ پانچ نمازیں ہیں۔ تو اُن سے کہا گیا تو آپ وتر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ فرض ہے - تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا کہ آپ کو حساب کرنا نہیں آتا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان المبارک میں آٹھ رکعت اور وتر پڑھایا۔ پھر آئندہ رات بھی ہم مسجد میں جمع ہو گئے اور اُمید کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائیں گے (اور نماز پڑھائیں گے) تو ہم مسجد ہی میں رہے حتیٰ کہ صبح ہو گئی ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ہمیں اُمید تھی کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے پاس تشریف لائیں گے اور ہمیں نماز پڑھائیں گے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض کردیے جائیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر (عدد) کو پسند کرتا ہے۔“
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب تمہیں صبح ہونے کا خوف ہو تو ایک رکعت وتر ادا کر لو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے ان روایات کی اسانید اس مسئلہ میں بیان کی ہیں جو میں نے اس شخص کے رد میں املاء کروائی ہیں جو خیال کرتا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں ہے، سوائے اس شخص کے جسے صبح ہوجانے کا ڈر ہو۔ اور میں نے اس مقام پر بیان کیا ہے، جس سے اہل فہم و تمیز کے لئے یہ مقالہ کہنے والے کی جہالت خوب واضح ہوگئی ہے۔
جناب انس بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی کہ نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں آپ مجھے بتائیں، کیا ان میں طویل قرأت کرلوں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعات ادا فرماتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
جناب مطلب بن عبداللہ مخزومی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ تو ایک شخص اُن کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے آپ سے وتر کے بارے میں سوال کیا۔ تو اُنہوں نے اُسے حُکم دیا کہ وتر علیحدہ پڑھا کرو۔ (ایک رکعت الگ پڑھو) اس شخص نے کہا، مجھے ڈر ہے کہ لوگ کہیں گے یہ دُم کٹی (ناقص) نماز ہے۔ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا تو کیا تم اللہ اور اُسکے رسول کی سنّت (جاننا) چاہتے ہو؟ یہ اللہ اور اُسکے رسول کی سنّت ہے۔